(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن نافع ، سمعت رجلا من الانصار من بني سلمة، يحدث عبد الله بن عمر في المسجد، ان" جارية لكعب بن مالك كانت ترعى غنما له بسلع، فعرض لشاة منها، فخافت عليها، فاخذت لخافة من حجر، فذبحتها بها، فسالوا النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فامرهم باكلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فِي الْمَسْجِدِ، أَنَّ" جَارِيَةً لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا لَهُ بِسَلْعٍ، فَعَرَضَ لِشَاةٍ مِنْهَا، فَخَافَتْ عَلَيْهَا، فَأَخَذَتْ لِخَافَةً مِنْ حَجَرٍ، فَذَبَحَتْهَا بِهَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَهُمْ بِأَكْلِهَا".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے بنو سلمہ کے ایک آدمی کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک باندی تھی جو ”سلع“ میں ان کی بکریاں چرایا کرتی تھی ان بکریوں میں سے ایک بکری مرنے کے قریب ہو گئی تو اس باندی نے تیز دھاری دار پتھر لے کر اس بکری کو اس سے ذبح کر دیا، لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، محمد بن إسحاق - وإن كان مدلسا ، وقد عنعن- وقد تابعه ايوب بن موسى عن نافع فيما سلف برقم 4597.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے علاقے میں سفر پر جاتے وقت قرآن کریم اپنے ساتھ لے جانے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م : 1869 ، محمد بن إسحاق - وإن كان مدلسا ، وقد عنعن- قد توبع .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: سمعت رسول الله" ينهى عن بيع حبل الحبلة، وذاك ان اهل الجاهلية كانوا يبيعون ذلك البيع، فنهاهم عن ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ" يَنْهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ، وَذَاكَ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَبِيعُونَ ذَلِكَ الْبَيْعَ، فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اونٹ کا گوشت حاملہ جانور کے حمل سے پیدا ہونے والے بچے کے بدلے بیچا کرتے تھے اور حاملہ جانور کے حمل سے پیدا ہونے والے بچے سے مراد ”جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہے“ اس کا بچہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ : 2256، م :1514 ، وهذا إسناد حسن ، محمد بن إسحاق - وإن عنعن هنا- قد صرح بالتحديث في الرواية الآتية برقم : 6308 ، فانتفت شبهة تدليسه.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، عن حجاج ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من ترك العصر متعمدا حتى تغرب الشمس، فكانما وتر اهله وماله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ مُتَعَمِّدًا حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر نماز عصر چھوڑ دے گویا اس کے اہل خانہ اور مال تباہ و برباد ہو گیا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م :626 ، وهذا إسناد ضعيف ، حجاج مدلس ، وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا العوام ، اخبرني حبيب بن ابي ثابت ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا تمنعوا نساءكم المساجد، وبيوتهن خير لهن"، قال: فقال ابن لعبد الله بن عمر: بلى، والله لنمنعهن! فقال ابن عمر: تسمعني احدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقول ما تقول؟!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمْ الْمَسَاجِدَ، وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ"، قَالَ: فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: بَلَى، وَاللَّهِ لَنَمْنَعُهُنَّ! فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: تَسْمَعُنِي أُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ مَا تَقُولُ؟!.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے اہل خانہ کو مسجد آنے سے نہ روکا کرو، البتہ ان کے گھر ان کے حق میں زیادہ بہتر ہیں“، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کوئی بیٹا کہنے لگا کہ ہم تو انہیں روکیں گے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو؟“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد ضعيف ، حبيب بن أبي ثابت مدلس، وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا ابو داود عمر بن سعد ، حدثنا بدر بن عثمان ، عن عبيد الله بن مروان ، عن ابي عائشة ، عن ابن عمر ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة بعد طلوع الشمس، فقال:" رايت قبيل الفجر كاني اعطيت المقاليد والموازين، فاما المقاليد فهذه المفاتيح، واما الموازين، فهذه التي تزنون بها، فوضعت في كفة، ووضعت امتي في كفة، فوزنت بهم، فرجحت، ثم جيء بابي بكر، فوزن بهم، فوزن، ثم جيء بعمر، فوزن، فوزن، ثم جيء بعثمان، فوزن بهم، ثم رفعت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَرْوَانَ ، عَنْ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَقَالَ:" رَأَيْتُ قُبَيْلَ الْفَجْرِ كَأَنِّي أُعْطِيتُ الْمَقَالِيدَ وَالْمَوَازِينَ، فَأَمَّا الْمَقَالِيدُ فَهَذِهِ الْمَفَاتِيحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِينُ، فَهِذه الَّتِي تَزِنُونَ بِهَا، فَوُضِعْتُ فِي كِفَّةٍ، وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي كِفَّةٍ، فَوُزِنْتُ بِهِمْ، فَرَجَحْتُ، ثُمَّ جِيءَ بِأَبِي بَكْرٍ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ، ثُمَّ جِيءَ بِعُمَرَ، فَوُزِنَ، فَوَزَنَ، ثُمَّ جِيءَ بِعُثْمَانَ، فَوُزِنَ بِهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلوع آفتاب کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آج میں نے نماز فجر سے کچھ ہی دیر قبل ایک خواب دیکھا ہے جس میں مجھے مقالید اور موازین دیئے گئے، مقالید سے مراد تو چابیاں ہیں اور موازین سے مراد ترازو ہیں جن سے تم وزن کرتے ہو، پھر اس ترازو کے ایک پلڑے میں مجھے رکھا گیا اور دوسرے میں میری ساری امت کو، میرا وزن زیادہ ہو گیا اور میرا پلڑا جھک گیا، پھر ابوبکر کو لایا گیا اور ان کا وزن کیا تو وہ بھی ساری امت سے زیادہ نکلا، پھر عمر کو لا کر ان کا وزن کیا گیا تو ان کا پلڑا بھی جھک گیا، پھر عثمان کو لایا گیا اور ان کا وزن کرنے کے بعد اس ترازو کو اٹھا لیا گیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ،عبدالله بن مروان لم يروعنه غير بدر بن عثمان ، ولم يوثقه غير ابن حبان.
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عاصم ، انبانا خالد الحذاء ، عن عبد الله بن شقيق العقيلي ، عن ابن عمر ، قال: نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل من اهل البادية، وانا بينه وبين البدوي، فقال: يا رسول الله، كيف صلاة الليل؟ فقال:" مثنى مثنى فإذا خشيت الصبح فواحدة، وركعتين قبل الغداة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، أَنْبَأَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَادَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، وَأَنَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَدَوِيِّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ:" مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ فَوَاحِدَةً، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ”اس وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس دیہاتی کے درمیان تھا“ یا رسول اللہ! رات کی نماز سے متعلق آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو اور دو رکعتیں فجر سے پہلے پڑھ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف علي بن عاصم الواسطي .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کو مساجد میں آنے سے امت روکو، البتہ ان کے گھر ان کے حق میں زیادہ بہتر ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد ضعيف ، حبيب بن أبي ثابت مدلس، وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا يحيى يعني ابن سعيد ، عن عمر بن نافع ، وقال يزيد مرة: ان عمر بن نافع اخبره، عن ابيه ، عن ابن عمر ، ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما نلبس إذا احرمنا؟ قال:" لا تلبسوا القمص، ولا السراويلات، ولا العمائم، ولا البرانس، ولا الخفاف، إلا ان يكون رجل ليست له نعلان، فيلبس الخفين، ويجعلهما اسفل من الكعبين، ولا تلبسوا شيئا من الثياب مسه الزعفران ولا الورس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ ، وَقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً: أِنَّ عُمَرَ بْنَ نَافِعٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نَلْبَسُ إِذَا أَحْرَمْنَا؟ قَالَ:" لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ، فَيَلْبَسَ الْخُفَّيْنِ، وَيَجْعَلَهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنَ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم احرام باندھ لیں تو کون سے کپڑے پہن سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرم قمیض، شلوار، عمامہ اور موزے نہیں پہن سکتا الاّ یہ کہ اسے جوتے نہ ملیں، جس شخص کو جوتے نہ ملیں اسے چاہئے کہ وہ موزوں کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لے، اسی طرح ٹوپی یا ایسا کپڑا جس پر ورس نامی گھاس یا زعفران لگی ہوئی ہو وہ بھی محرم نہیں پہن سکتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى بن سعيد ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تبايعوا الثمر حتى يبدو صلاحه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَبَايَعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تک پھل خوب پک نہ جائے، اس وقت تک اس کی خرید و فروخت نہ کیا کرو۔“