(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا يزيد بن ابي زياد ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما من ايام اعظم عند الله، ولا احب إليه من العمل فيهن، من هذه الايام العشر، فاكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِيهِنَّ، مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دونوں میں تہلیل و تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، ان معاوية قدم مكة، فدخل الكعبة، فبعث إلى ابن عمر : اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال:" صلى بين الساريتين بحيال الباب"، فجاء ابن الزبير، فرج الباب رجا شديدا، ففتح له، فقال لمعاوية: اما إنك قد علمت اني كنت اعلم مثل الذي يعلم، ولكنك حسدتني!!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَدِمَ مَكَّةَ، فَدَخَلَ الْكَعْبَةَ، فَبَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ : أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:" صَلَّى بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ بِحِيَالِ الْبَابِ"، فَجَاءَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، فَرَجَّ الْبَابَ رَجًّا شَدِيدًا، فَفُتِحَ لَهُ، فَقَالَ لِمُعَاوِيَةَ: أَمَا إِنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ أَنِّي كُنْتُ أَعْلَمُ مِثْلَ الَّذِي يَعْلَمُ، وَلَكِنَّكَ حَسَدْتَنِي!!.
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ آئے تو بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے اندر کس حصے میں نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ باب کعبہ کے عین سامنے دو ستونوں کے درمیان، اتنی دیر میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آ گئے اور زور زور سے دروازہ بجایا دروازہ کھلا تو انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کو معلوم تھا کہ یہ بات ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرح مجھے بھی پتہ ہے (پھر بھی آپ نے یہ بات ان سے دریافت کروائی؟) اصل بات یہ ہے کہ آپ کو مجھ سے حسد ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر کے آئے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کو جا رہے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا گیا شفاعت کا یا نصف امت کے جنت میں داخل ہونے کا، تو میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا، کیونکہ یہ زیادہ عام اور کفایت کرنے والی چیز ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ متقیوں کے لئے ہو گی؟ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے لئے ہو گی جو گناہوں میں ملوث ہوں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام راويه عن ابن عمر ، ولجهالة علي بن النعمان بن قراد .