سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تمہیں کسی مالدار کے حوالے کر دیا جائے تو اس کے پیچھے لگ کر اپنا قرض اس سے وصول کرو اور ایک معاملے میں دو بیع کرنا صیحح نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره ، وهذا إسناد رجاله ثقات .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم سونے لگو تو اپنے گھروں میں آگ کو جلتا ہوا نہ چھوڑا کرو کیونکہ وہ دشمن ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھا ہے، پھر اس کا حصہ لگتے ہوئے بھی دیکھا ہے، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہوتا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہوتا تھا۔
زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نیلامی کی بیع کے متعلق سوال پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے سوائے مال غنیمت کے یا مال وراثت کے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا ليث ، حدثنا عاصم ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: سالت ابن عمر عن صلاة الليل، فقال ابن عمر : سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل، وانا بينهما، فقال:" صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشيت الصبح فبادر الصبح بركعة، وركعتين قبل صلاة الغداة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، وَأَنَا بَيْنَهُمَا، فَقَالَ:" صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ فَبَادِرْ الصُّبْحَ بِرَكْعَةٍ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ".
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رات کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز سے متعلق پوچھا جبکہ میں ان دونوں کے درمیان تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو اور دو رکعتیں نماز فجر سے پہلے پڑھ لیا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم .
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سلمة الخزاعي ، اخبرنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" لاعن بين رجل وامراته، والحق الولد بامه، وكان انتفى من ولدها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَاعَنَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ، وَكَانَ انْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی سے لعان کیا اور اس کے بچے کی اپنی طرف نسبت کی نفی کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر ا دی اور بچے کو ماں کے حوالے کر دیا۔
واسع بن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہر مرتبہ سر جھکاتے اور اٹھاتے وقت تکبیر کا ذکر کیا اور دائیں جانب «السلام عليكم ورحمته الله» کا اور بائیں جانب «السلام عليكم» کا ذکر کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سلمة الخزاعي ، اخبرنا ابن بلال ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تدخلوا على هؤلاء القوم المعذبين، إلا ان تكونوا باكين، فإن لم تكونوا باكين فلا تدخلوا عليهم، ان يصيبكم مثل ما اصابهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِينَ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان معذب اقوام پر روتے ہوئے داخل ہوا کرو، اگر تمہیں رونا نہ آتا ہو تو وہاں نہ جایا کرو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بھی وہ عذاب نہ آ پکڑے جو ان پر آیا تھا۔“