(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا سليمان الاعمش ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من استعاذ بالله فاعيذوه، ومن سالكم بالله فاعطوه، ومن دعاكم فاجيبوه، ومن اتى إليكم معروفا فكافئوه، فإن لم تجدوا ما تكافئوه، فادعوا له حتى تعلموا ان قد كافاتموه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُوهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَعْلَمُوا أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دے دو، جو شخص اللہ کے نام پر سوال کرے اسے عطاء کر دو، جو شخص تمہیں دعوت دے اسے قبول کر لو، جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس کا بدلہ دو، اگر بدلہ دینے کے لئے کچھ نہ ملے تو اس کے لئے اتنی دعائیں کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ اتار دیا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي بشر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم" خاتم من ذهب، وكان يجعل فصه في باطن يده، قال: فطرحه ذات يوم، فطرح الناس خواتيمهم، ثم اتخذ خاتما من فضة، فكان يختم به ولا يلبسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَكَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ فِي بَاطِنِ يَدِهِ، قَالَ: فَطَرَحَهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَطَرَحَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ، ثُمَّ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ، فَكَانَ يَخْتِمُ بِهِ وَلَا يَلْبَسُهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، اس کا نگینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیلی کی طرف کر لیتے تھے، لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا، لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار پھینکیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوا لی، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہر لگاتے تھے لیکن اسے پہنتے نہیں تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، اخبرني سالم ، انه سمع عبد الله يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه" لقي زيد بن عمرو بن نفيل باسفل بلدح، وذلك قبل ان ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي، فقدم إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم سفرة فيها لحم، فابى ان ياكل منها، ثم قال: إني لا آكل مما تذبحون على انصابكم، ولا آكل إلا مما ذكر اسم الله عليه"، حدث هذا عبد الله بن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ" لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي لَا آكُلُ ممَا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلَا آكُلُ إِلَّا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ"، حَدَّثَ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے نشیبی علاقے میں نزول وحی کا زمانہ شروع ہونے سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زید بن عمرو بن نفیل سے ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے دستر خوان بچھایا اور گوشت لا کر سامنے رکھا، انہوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ میں ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا جنہیں تم لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربان کرتے ہو، بلکہ میں صرف وہ چیزیں کھاتا ہوں جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي الصديق ، عن ابن عمر ، قال: همام: في كتابي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا وضعتم موتاكم في القبر فقولوا: بسم الله، وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: هَمَّامٌ: فِي كِتَابِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا وَضَعْتُمْ مَوْتَاكُمْ فِي الْقَبْرِ فَقُولُوا: بِسْمِ اللَّهِ، وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اپنے مردوں کو قبر میں اتارو تو کہو «بسم الله، وعلي سنة رسول الله» ۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو اور اس کے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لئے بخشش کی دعاء کرواؤ، کیونکہ وہ بخشا بخشایا ہوا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، محمد بن الحارث الحارثي وعبدالرحمن بن البيلماني أبو محمد ضعيفان ، ومحمد بن عبدالرحمن البيلماني ضعيف أيضا ، وقال عنه البخاري : منكر الحديث .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین آدمیوں پر اللہ نے جنت کو حرام قرار دے دیا ہے، شراب کا عادی، والدین کا نافرمان اور وہ بےغیرت آدمی جو اپنے گھر میں گندگی کو برداشت کرتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الشيخ الذي رواه عن سالم ، لكن سيأتي بأطول مما هنا برقم : 6180، وإسناده حسن .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، سمعت ابي يحدث، عن يزيد يعني ابن الهاد ، عن عمر بن عبد الله ، انه حدثه، ان عبد الله بن عمر لقي ناسا خرجوا من عند مروان، فقال:" من اين جاء هؤلاء؟" قالوا: خرجنا من عند الامير مروان، قال:" وكل حق رايتموه تكلمتم به، واعنتم عليه، وكل منكر رايتموه انكرتموه ورددتموه عليه؟" قالوا: لا والله، بل يقول ما ينكر، فنقول: قد اصبت اصلحك الله، فإذا خرجنا من عنده قلنا: قاتله الله، ما اظلمه وافجره!! قال عبد الله :" كنا بعهد رسول الله صلى الله عليه وسلم نعد هذا نفاقا، لمن كان هكذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ لَقِيَ نَاسًا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ، فَقَالَ:" مِنْ أَيْنَ جَاءَ هَؤُلَاءِ؟" قَالُوا: خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ الْأَمِيرِ مَرْوَانَ، قَالَ:" وَكُلُّ حَقٍّ رَأَيْتُمُوهُ تَكَلَّمْتُمْ بِهِ، وَأَعَنْتُمْ عَلَيْهِ، وَكُلُّ مُنْكَرٍ رَأَيْتُمُوهُ أَنْكَرْتُمُوهُ وَرَدَدْتُمُوهُ عَلَيْهِ؟" قَالُوا: لَا وَاللَّهِ، بَلْ يَقُولُ مَا يُنْكَرُ، فَنَقُولُ: قَدْ أَصَبْتَ أَصْلَحَكَ اللَّهُ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ قُلْنَا: قَاتَلَهُ اللَّهُ، مَا أَظْلَمَهُ وَأَفْجَرَهُ!! قَالَ عَبْدُ اللَّهِ :" كُنَّا بِعَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعُدُّ هَذَا نِفَاقًا، لِمَنْ كَانَ هَكَذَا".
عمر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ مروان کے پاس سے نکل رہے تھے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ان سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں سے آ رہے ہیں؟ وہ لوگ بولے کہ ہم امیر مدینہ مروان کے پاس سے آ رہے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا تم نے وہاں جو حق بات دیکھی اس کے متعلق بولے اور اس کی اعانت کی، اور جو منکر دیکھا اس پر نکیر اور تریدد کی؟ وہ کہنے لگے کہ واللہ! ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ غلط بات کہتا تھا اور ہم اس کی تائید کرتے تھے اور اس سے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بہتری کا معاملہ کرے، اور جب ہم وہاں سے نکل آئے تو ہم کہنے لگے کہ اللہ اسے قتل کرے، یہ کتنا ظالم اور بدکار ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں اس چیز کو ہم نفاق سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر ، قال:" اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب جارية من سبي هوازن، فوهبها لي، فبعثت بها إلى اخوالي من بني جمح، ليصلحوا لي منها حتى اطوف بالبيت ثم آتيهم، وانا اريد ان اصيبها إذا رجعت إليها، قال: فخرجت من المسجد حين فرغت، فإذا الناس يشتدون، فقلت: ما شانكم؟ قالوا: رد علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ابناءنا ونساءنا، قال: قلت: تلك صاحبتكم في بني جمح، فاذهبوا فخذوها، فذهبوا فاخذوها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَارِيَةً مِنْ سَبْيِ هَوَازِنَ، فَوَهَبَهَا لِي، فَبَعَثْتُ بِهَا إِلَى أَخْوَالِي مِنْ بَنِي جُمَحٍ، لِيُصْلِحُوا لِي مِنْهَا حَتَّى أَطُوفَ بِالْبَيْتِ ثُمَّ آتِيَهُمْ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُصِيبَهَا إِذَا رَجَعْتُ إِلَيْهَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ مِنَ الْمَسْجِدِ حِينَ فَرَغْتُ، فَإِذَا النَّاسُ يَشْتَدُّونَ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُكُمْ؟ قَالُوا: رَدَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا، قَالَ: قُلْتُ: تِلْكَ صَاحِبَتُكُمْ فِي بَنِي جُمَحٍ، فَاذْهَبُوا فَخُذُوهَا، فَذَهَبُوا فَأَخَذُوهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بنو ہوازن کے قیدیوں میں سے ایک باندی عطاء فرمائی وہ انہوں نے مجھے ہبہ کر دی، میں نے اسے بنوجمح میں اپنے ننہیال بھجوادیا تاکہ وہ اسے تیار کریں اور میں بیت اللہ کا طواف کر آؤں، واپس آکر میرا ارادہ اس سے ”خلوت“ کرنے کا تھا، چنانچہ فارغ ہو کر جب میں مسجد سے نکلا تو دیکھا کہ لوگ بھاگے جا رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہمارے بیٹے اور عورتیں واپس لوٹا دی ہیں، میں نے کہا کہ پھر تمہاری ایک عورت بنوجمح میں بھی ہے، جا کر اسے وہاں سے لے آؤ، چنانچہ انہوں نے وہاں جا کر اسے حاصل کر لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن ، ابن إسحاق صرح بالتحديث هنا ، فانتفت شبهة تدليسه .