سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غیر اللہ کی قسم کھاتا ہے۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق سخت بات ارشاد فرمائی۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: واخبرنا سالم، قال: واخبرنا سالم، عن عبد الله بن عمر، قال: اكثر ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحلف بهذه اليمين، يقول:" لا ومقلب القلوب".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سَالِمٌ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سَالِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَكْثَرُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْلِفُ بِهَذِهِ الْيَمِينِ، يَقُولُ:" لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جن الفاظ سے قسم کھایا کرتے تھے وہ یہ تھے «لا و مقلب القلوب» نہیں، مقلب القلوب کی قسم
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب ، حدثنا ابو حمزة يعني السكري ، عن ابن ابي ليلى ، عن صدقة المكي ، عن ابن عمر ، قال: اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم في العشر الاواخر من رمضان، فاتخذ له فيه بيت من سعف، قال: فاخرج راسه ذات يوم، فقال:" إن المصلي يناجي ربه عز وجل، فلينظر احدكم بما يناجي ربه، ولا يجهر بعضكم على بعض بالقراءة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ يَعْنِي السُّكَّرِيَّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صَدَقَةَ الْمَكِّيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَاتُّخِذَ لَهُ فِيهِ بَيْتٌ مِنْ سَعَفٍ، قَالَ: فَأَخْرَجَ رَأْسَهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ:" إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ بِمَا يُنَاجِي رَبَّهُ، وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقِرَاءَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھجور کی شاخوں سے ایک خیمہ بنادیا گیا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے سر نکالا اور ارشاد فرمایا: ”جو شخص بھی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے درحقیقت وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے، اس لئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم اپنے رب سے کیا مناجات کر رہے ہو؟ اور تم نماز میں ایک دوسرے سے اونچی قرأت نہ کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، ابن أبي ليلى-وإن كان سيء الحفظ- قد تابعه معمر بن راشد فيما مضى برقم : 4928 .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص حج و عمرہ کا قران کرے اس کے لئے ان دونوں کی طرف سے ایک ہی طواف کافی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب ، حدثنا عبد الله يعني ابن مبارك ، اخبرنا موسى بن عقبة ، عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من جر ثوبه خيلاء، لم ينظر الله إليه يوم القيامة"، فقال ابو بكر: إن احد شقي ثوبي يسترخي إلا ان اتعاهد ذلك منه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك لست ممن يصنع ذلك خيلاء"، قال موسى: قلت لسالم: اذكر عبد الله:" من جر إزاره"؟ قال: لم اسمعه ذكر إلا" ثوبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ، لَمْ يَنْظُرْ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ ثَوْبِي يَسْتَرْخِي إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ خُيَلَاءَ"، قَالَ مُوسَى: قُلْتُ لِسَالِمٍ: أَذَكَرَ عَبْدُ اللَّهِ:" مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ"؟ قَالَ: لَمْ أَسْمَعْهُ ذَكَرَ إِلَّا" ثَوْبَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے زمین پر گھسیٹتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہیں فرمائے گا“، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے کپڑے کا ایک کونا بعض اوقات نیچے لٹک جاتا ہے گو کہ میں کوشش تو بہت کرتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو یہ کام تکبر کی وجہ سے کرتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الملك ، حدثنا محمد بن سلمة ، عن محمد بن إسحاق ، عن محمد بن طلحة ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ينزل الدجال في هذه السبخة بمر قناة، فيكون اكثر من يخرج إليه النساء، حتى إن الرجل ليرجع إلى حميمه، وإلى امه، وابنته، واخته، وعمته، فيوثقها رباطا، مخافة ان تخرج إليه، ثم يسلط الله المسلمين عليه، فيقتلونه ويقتلون شيعته، حتى إن اليهودي ليختبئ تحت الشجرة او الحجر، فيقول الحجر او الشجرة للمسلم: هذا يهودي تحتي، فاقتله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَنْزِلُ الدَّجَّالُ فِي هَذِهِ السَّبَخَةِ بِمَرِّ قَنَاةَ، فَيَكُونُ أَكْثَرَ مَنْ يَخْرُجُ إِلَيْهِ النِّسَاءُ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَرْجِعُ إِلَى حَمِيمِهِ، وَإِلَى أُمِّهِ، وَابْنَتِهِ، وَأُخْتِهِ، وَعَمَّتِهِ، فَيُوثِقُهَا رِبَاطًا، مَخَافَةَ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِ، ثُمَّ يُسَلِّطُ اللَّهُ الْمُسْلِمِينَ عَلَيْهِ، فَيَقْتُلُونَهُ وَيَقْتُلُونَ شِيعَتَهُ، حَتَّى إِنَّ الْيَهُودِيَّ لَيَخْتَبِئُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ أَوْ الْحَجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوْ الشَّجَرَةُ لِلْمُسْلِمِ: هَذَا يَهُودِيٌّ تَحْتِي، فَاقْتُلْهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دجال اس ”مرقناۃ“ کی دلدلی زمین میں آ کر پڑاؤ ڈالے گا، اس کے پاس نکل نکل کر جانے والوں میں اکثریت خواتین کی ہو گی اور نوبت یہاں تک جاپہنچے گی کہ ایک آدمی اپنے گھر میں اپنی ماں، بیٹی، بہن اور پھوپھی کے پاس آ کر انہیں اس اندیشے سے کہ کہیں یہ دجال کے پاس نہ چلی جائیں، رسیوں سے باندھ دے گا، پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دجال پر تسلط عطاء فرمائے گا اور وہ اسے اور اس کے ہمنواؤں کو قتل کر دیں گے، حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی کسی درخت یا پتھر کے نیچے چھپا ہو گا تو وہ درخت اور پتھر مسلمانوں سے پکار پکار کر کہے گا کہ یہ میرے نیچے یہودی چھپا ہوا ہے، آ کر اسے قتل کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، فيه محمد بن إسحاق وهو مدلس، وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الملك ، اخبرنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فسمعته استغفر مائة مرة، ثم يقول:" اللهم اغفر لي، وارحمني، وتب علي، إنك انت التواب الرحيم"، او" إنك تواب غفور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ اسْتَغْفَرَ مِائَةَ مَرَّةٍ، ثُمَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ"، أَوْ" إِنَّكَ تَوَّابٌ غَفُورٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سو مرتبہ استغفار کرتے ہوئے سنا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ أَوْ إِنَّكَ تَوَّابٌ غَفُورٌ»”اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھ پر توجہ فرما، بیشک تو نہایت توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے یا یہ کہ نہایت بخشنے والا ہے۔“