(حديث مرفوع) قال: قرات على عبد الرحمن : مالك ، وحدثنا إسحاق ، قال: اخبرنا مالك ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم راى بصاقا في جدار القبلة، فحكه، ثم اقبل على الناس، فقال:" إذا كان احدكم يصلي فلا يبصقن قبل وجهه، فإن الله عز وجل قبل وجهه إذا صلى"، قال إسحاق في حديثه: بصاقا.(حديث مرفوع) قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى بُصَاقًا فِي جِدَارِ الْقِبْلَةِ، فَحَكَّهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ:" إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي فَلَا يَبْصُقَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى"، قَالَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ: بُصَاقًا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی جانب تھوک لگا ہوا دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے صاف کر دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے اس لئے تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں اپنے چہرے کے سامنے نہ تھوکا کرے۔“
(حديث مرفوع) قال: قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يلبس المحرم ثوبا مصبوغا بزعفران او ورس، وقال:" من لم يجد نعلين فليلبس خفين، وليقطعهما اسفل من الكعبين".(حديث مرفوع) قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِزَعْفَرَانٍ أَوْ وَرْسٍ، وَقَالَ:" مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم کو زعفران یا ورس سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع کیا ہے اور ارشاد فرمایا: ”اگر محرم کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے ہی پہن لے لیکن ٹخنوں سے نیچے کا حصہ کاٹ لے۔“
(حديث مرفوع) قال: قرات على عبد الرحمن : مالك ، وحدثنا روح ، حدثنا مالك ، عن موسى بن عقبة ، عن سالم ، عن ابيه ، انه قال: بيداؤكم هذه التي تكذبون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها!" ما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد"، يعني: مسجد ذي الحليفة، قال عبد الرحمن: وقد سمعته من مالك.(حديث مرفوع) قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، وَحَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: بَيْدَاؤُكُمْ هَذِهِ الَّتِي تَكْذِبُونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا!" مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ"، يَعْنِي: مَسْجِدَ ذِي الْحُلَيْفَةِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ مَالِكٍ.
سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے یہ وہ مقام بیداء ہے جس کے متعلق تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط نسبت کرتے ہو، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی مسجد ہی سے احرام باندھا ہے (مقام بیداء سے نہیں جیسا کہ تم نے مشہور کر رکھا ہے)۔
(حديث مرفوع) قال: قرات على عبد الرحمن : مالك ، وحدثنا عبد الرزاق ، حدثنا مالك ، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن عبيد بن جريج ، انه قال لعبد الله بن عمر: يا ابا عبد الرحمن، رايتك تصنع اربعا لم ار من اصحابك من يصنعها! قال: ما هن يا ابن جريج؟ قال: رايتك لا تمس من الاركان إلا اليمانيين، ورايتك تلبس النعال السبتية، ورايتك تصبغ بالصفرة، ورايتك إذا كنت بمكة اهل الناس إذا راوا الهلال، ولم تهلل انت حتى يكون يوم التروية! فقال عبد الله :" اما الاركان: فإني لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس إلا اليمانيين، واما النعال السبتية: فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التي ليس فيها شعر، ويتوضا فيها، فانا احب ان البسها، واما الصفرة: فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فانا احب ان اصبغ بها، واما الإهلال: فإني لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به ناقته".(حديث مرفوع) قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ مِنْ أَصْحَابِكَ مَنْ يَصْنَعُهَا! قَالَ: مَا هُنَّ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ؟ قَالَ: رَأَيْتُكَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْكَانِ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْهِلَالَ، وَلَمْ تُهْلِلْ أَنْتَ حَتَّى يَكُونَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ! فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ :" أَمَّا الْأَرْكَانُ: فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمَسُّ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ: فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعَرٌ، وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، وَأَمَّا الصُّفْرَةُ: فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، وَأَمَّا الْإِهْلَالُ: فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ نَاقَتُهُ".
عبید ابن جریج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ آپ کو چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جو میں آپ کے ساتھیوں میں آپ کے علاوہ کسی اور کو کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، انہوں نے پوچھا کہ وہ کون سے کام ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کرتے ہیں،کسی اور رکن کا استلام نہیں کرتے، میں آپ کو رنگی ہوئی کھالوں کی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھتا ہوں، اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی داڑھی کو رنگین کرتے ہیں؟ اور میں دیکھتا ہوں کہ جب آپ مکہ مکرمہ میں ہوتے ہیں تو لوگ چاند دیکھتے ہی تلبیہ پڑھ لیتے ہیں اور آپ اس وقت تک تلبیہ نہیں پڑھتے جب تک ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ نہ آ جائے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رکن یمانی اور حجر اسود ہی کو بوسہ دینے کی جو بات ہے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف انہی دو کونوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے علاوہ کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے، رنگی ہوئی کھال کی جوتیاں پہننے کی جو بات ہے تو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسی جوتی پہنی ہے، اسے پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو بھی فرما لیتے تھے اور اسے پسند کرتے تھے، داڑھی کو رنگنے کا جو مسئلہ ہے، سو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی داڑھی رنگتے ہوئے دیکھا ہے اور احرام باندھنے کی جو بات ہے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت احرام باندھتے ہوئے نہیں دیکھاجب تک سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر روانہ نہیں ہو جاتی تھی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکر و مؤنث اور آزاد و غلام سب مسلمانوں پر صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، اخبرنا عبد الله ، اخبرنا يونس ، عن الزهري ، اخبرني سالم ، ان ابن عمر حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" بينما رجل يجر إزاره من الخيلاء خسف به، فهو يتجلجل في الارض إلى يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ يَجُرُّ إِزَارَهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ خُسِفَ بِهِ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِي الْأَرْضِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک زمین میں دھنس گیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا رہے گا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر رات کی نماز سے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو، تم نے رات میں جتنی نماز پڑھی ہو گی ان سب کی طرف سے یہ وتر کے لئے کافی ہو جائے گی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ : 473، م :729، وهذا إسناد جيد .
(حديث مرفوع) حدثنا يعمر بن بشر ، اخبرنا عبد الله ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني سالم بن عبد الله ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما مر بالحجر قال:" لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا، إلا ان تكونوا باكين، ان يصيبكم ما اصابهم"، وتقنع بردائه وهو على الرحل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْمَرُ بْنُ بِشْرٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا مَرَّ بِالْحِجْرِ قَالَ:" لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ"، وَتَقَنَّعَ بِرِدَائِهِ وَهُوَ عَلَى الرَّحْلِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قوم ثمود پر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان معذب اقوام پر روتے ہوئے داخل ہوا کرو، اگر تمہیں رونا نہ آتا ہو تو وہاں نہ جایا کرو، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر چادر ڈھانپ لی اور اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار تھے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، وقال مرة: حيوة ، عن ابن الهاد ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يا معشر النساء، تصدقن واكثرن، فإني رايتكن اكثر اهل النار، لكثرة اللعن وكفر العشير، ما رايت من ناقصات عقل ودين اغلب لذي لب منكن"، قالت: يا رسول الله، وما نقصان العقل والدين؟ قال:" اما نقصان العقل والدين، فشهادة امراتين تعدل شهادة رجل، فهذا نقصان العقل، وتمكث الليالي لا تصلي، وتفطر في رمضان، فهذا نقصان الدين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوف ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، وَقَالَ مَرَّةً: حَيْوَةُ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَأَكْثِرْنَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، لِكَثْرَةِ اللَّعْنِ وَكُفْرِ الْعَشِيرِ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ:" أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ، فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ، فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِيَ لَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ، فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ خواتین! کثرت سے صدقہ دیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں تمہاری اکثریت دیکھی ہے اور ایسا تمہاری لعن طعن میں کثرت اور شوہروں کی نافرمانی کی وجہ سے ہو گا، میں نے تم سے بڑھ کر دین و عقل کے اعتبار سے کوئی ناقص مخلوق ایسی نہیں دیکھی جو تم سے زیادہ کسی عقلمند آدمی پر غالب آ جاتی ہو ایک خاتون نے پوچھا: یا رسول اللہ! دین و عقل میں ناقص ہونے سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہونا تو عقل کے ناقص ہونے کی علامت ہے اور کئی دنوں تک نماز روزہ نہ کر سکنا دین کے ناقص ہونے کی علامت ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب ، حدثنا عبد الله ، اخبرنا موسى بن عقبة ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اليد العليا خير من اليد السفلى، اليد العليا المنفقة، واليد السفلى السائلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، الْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالْيَدُ السُّفْلَى السَّائِلَةُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے اوپر والے ہاتھ سے مرادخرچ کر نے والا اور نیچے والے ہاتھ سے مراد مانگنے والا ہاتھ ہے۔“