سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منت ماننے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے تقدیر کا تو کوئی فیصلہ بھی نہیں ٹلتا، البتہ بخیل آدمی سے اسی طرح مال نکلوایا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 6608 ، م : 1639 .
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن علقمة ، عن رزين الاحمري ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن رجل طلق امراته ثلاثا، ثم تزوجها رجل، فاغلق الباب، وارخى الستر، ونزع الخمار، ثم طلقها قبل ان يدخل بها، تحل لزوجها الاول؟ فقال:" لا، حتى يذوق عسيلتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ رَزِينٍ الْأَحْمَرِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ تَزَوَّجَهَا رَجُلٌ، فَأَغْلَقَ الْبَابَ، وَأَرْخَى السِّتْرَ، وَنَزَعَ الْخِمَارَ، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، تَحِلُّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ؟ فَقَالَ:" لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے، دوسرا شخص اس عورت سے نکاح کر لے دروازے بند ہو جائیں اور پردے لٹکا دئیے جائیں، دوپٹا اتر جائے لیکن دخول سے قبل ہی وہ اسے طلاق دے دے تو کیا وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی؟ فرمایا: ”نہیں، جب تک کہ وہ دوسرا شوہر اس کا شہد نہ چکھ لے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف ، علته رزين الأحمري .
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يرفع يديه إذا استفتح الصلاة، وإذا اراد ان يركع، وإذا رفع راسه من الركوع، ولا يفعل ذلك في السجود".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آغاز میں اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر کر کے رفع یدین کرتے تھے، نیز رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد بھی رفع یدین کرتے تھے لیکن دو سجدوں کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین نہیں کیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی حرام قرار دیتا ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، قال: كنت مع ابن عمر انا ورجل آخر، فدعا رجلا آخر، ثم قال: استرخيا، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى ان ينتجي اثنان دون واحد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ أَنَا وَرَجُلٌ آخَرُ، فَدَعَا رَجُلًا آخَرَ، ثُمَّ قَالَ: اسْتَرْخِيَا، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يَنْتَجِيَ اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ".
عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے کہ ایک مرتبہ میں اور دوسرا شخص سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے، انہوں نے دوسرے آدمی کو بلایا اور فرمایا: ”تم دونوں نرمی کیا کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ایک آدمی کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشیاں کر نے لگیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 6288 ، م : 2183 .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بات سننے اور اطاعت کر نے کی شرط پر بیعت لیا کرتے تھے پھر فرماتے تھے کہ حسب استطاعت، (جہاں تک ممکن ہو گا تم بات سنو گے اور مانو گے)۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 7202 ، م : 1867 .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کیا کرو۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال:" كنا نتقي كثيرا من الكلام والانبساط إلى نسائنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، مخافة ان ينزل فينا القرآن، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم تكلمنا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كُنَّا نَتَّقِي كَثِيرًا مِنَ الْكَلَامِ وَالِانْبِسَاطِ إِلَى نِسَائِنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَخَافَةَ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا الْقُرْآنُ، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمْنَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں زیادہ بات چیت اور اپنی بیویوں کے ساتھ مکمل بےتکلفی سے بچا کرتے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے متعلق قرآن میں کوئی احکام جاری ہو جائیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تب ہم نے کلام کیا۔