(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، سمعت عبد الرحمن ، قال ابن مهدي: هو ابن علقمة، يقول: سمعت ابن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعفوا اللحى، وحفوا الشوارب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ ، قَالَ ابْنُ مَهْدِيٍّ: هُوَ ابْنُ عَلْقَمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْفُوا اللِّحَى، وَحُفُّوا الشَّوَارِبَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مونچھیں خوب اچھی طرح کتروایا کرو اور ڈاڑھی خوب بڑھایا کرو۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم امی امت ہیں، حساب کتاب نہیں جانتے، بعض اوقات مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا ہوتا ہے۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا بند کر لیا یعنی ٢٩ کا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، قال: سمعت سالم بن عبد الله يحدث، عن ابن عمر ، قال: قال عمر: يا رسول الله، ارايت ما نعمل فيه، افي امر قد فرغ منه، او مبتدإ او مبتدع؟ قال:" فيما قد فرغ منه، فاعمل يا ابن الخطاب، فإن كلا ميسر، اما من كان من اهل السعادة، فإنه يعمل للسعادة، واما من كان من اهل الشقاء، فإنه يعمل للشقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَفِي أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ مُبْتَدَإٍ أَوْ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ:" فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَاعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَإِنَّ كُلًّا مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، لہٰذا اے ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ اہل سعادت میں سے ہو تو وہ سعادت والے اعمال کرتا ہے اور اہل شقاوت میں سے ہو تو بدبختی والے اعمال کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم .
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا زائدة ، عن موسى بن ابي عائشة ، عن عبيد الله بن عبد الله ، قال: دخلت على عائشة ، فقلت: الا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: بلى، ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اصلى الناس؟" فقلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، قال:" ضعوا لي ماء في المخضب"، ففعلنا، فاغتسل، ثم ذهب لينوء فاغمي عليه، ثم افاق، فقال" اصلى الناس؟" قلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، قال:" ضعوا لي ماء في المخضب"، فذهب لينوء فغشي عليه، قالت: والناس عكوف في المسجد ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر بان يصلي بالناس، وكان ابو بكر رجلا رقيقا، فقال: يا عمر، صل بالناس، فقال: انت احق بذلك، فصلى بهم ابو بكر تلك الايام، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد خفة، فخرج بين رجلين احدهما العباس لصلاة الظهر، فلما رآه ابو بكر ذهب ليتاخر، فاوما إليه ان لا يتاخر، وامرهما فاجلساه إلى جنبه، فجعل ابو بكر يصلي قائما ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا، فدخلت على ابن عباس ، فقلت: الا اعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: هات، فحدثته، فما انكر منه شيئا، غير انه قال: هل سمت لك الرجل الذي كان مع العباس؟ قلت: لا، قال: هو علي رحمة الله عليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ؟" فَقُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ"، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ" أَصَلَّى النَّاسُ؟" قُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ"، فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَغُشِيَ عَلَيْهِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا، فَقَالَ: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ، فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ، وَأَمَرَهُمَا فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ، فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: هَاتِ، فَحَدَّثْتُهُ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: هَلْ سَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ.
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے بارے کچھ بتائیں گی؟ فرمایا: کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت جب بوجھل ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ!! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے ایک ٹب میں پانی رکھو“، ہم نے ایسے ہی کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور جانے کے لئے کھڑے ہونے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بےہوشی طاری ہو گئی جب افاقہ ہوا تو پھر یہی سوال پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے حسب سابق وہی جواب دیا اور تین مرتبہ اسی طرح ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ نماز عشاء کے لئے مسجد میں بیٹھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رقیق القلب آدمی تھے، کہنے لگے: اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، انہوں نے کہا اس کے حقدار تو آپ ہی ہیں، چنانچہ ان دنوں میں سیدنا صدیق ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے۔ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے وقت دو آدمیوں کے درمیان نکلے، جن میں سے ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور اپنے ساتھ آنے والے دونوں صاحبوں کو حکم دیا، تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سماعت کے بعد ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں آیا ہوا تھا، میں نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کے سامنے وہ حدیث پیش کروں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے سنائی ہے؟ انہوں نے کہا ضرور بیان کرو، چنانچہ میں نے ان سے ساری حدیث بیان کر دی انہوں نے اس کے کسی حصے پر نکیر نہیں فرمائی، البتہ اتنا ضرور پوچھا کہ کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو اس آدمی کا نام بتایا جو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے، اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن عطاء ، عن كثير بن جمهان ، قال: رايت ابن عمر يمشي بين الصفا والمروة، فقلت: تمشي؟ فقال:" إن امش فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي، وإن اسع فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسعى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَمْشِي بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقُلْتُ: تَمْشِي؟ فَقَالَ:" إِنْ أَمْشِ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، وَإِنْ أَسْعَ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى".
کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو صفا مروہ کے درمیان عام رفتار سے چلتے ہوئے دیکھا تو ان سے پوچھا کہ آپ عام رفتار سے چل رہے ہیں؟ فرمایا: اگر میں عام رفتار سے چلوں، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس طرح چلتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر تیزی سے چلوں تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح بھی دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، كثير بن جمهان لم يرو عنه غير اثنين ولم يوثقه غير ابن حبان ، و قال أبو حاتم : شيخ يكتب حديثه ، يعني في المتابعات و الشواهد .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری جو بیوی تھی وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسے طلاق دے دو، میں نے اسے طلاق دینے میں لیت و لعل کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔