(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، قال: سمعت سالم بن عبد الله يحدث، عن ابن عمر ، قال: قال عمر: يا رسول الله، ارايت ما نعمل فيه، افي امر قد فرغ منه، او مبتدإ او مبتدع؟ قال:" فيما قد فرغ منه، فاعمل يا ابن الخطاب، فإن كلا ميسر، اما من كان من اهل السعادة، فإنه يعمل للسعادة، واما من كان من اهل الشقاء، فإنه يعمل للشقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَفِي أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ مُبْتَدَإٍ أَوْ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ:" فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَاعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَإِنَّ كُلًّا مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، لہٰذا اے ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ اہل سعادت میں سے ہو تو وہ سعادت والے اعمال کرتا ہے اور اہل شقاوت میں سے ہو تو بدبختی والے اعمال کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم .