(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: نادى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا رسول الله، كيف تامرنا نصلي من الليل؟ قال:" يصلي احدكم مثنى مثنى، فإذا خشي الصبح يصلي واحدة، فاوترت له ما قد صلى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَادَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَأْمُرُنَا نُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ؟ قَالَ:" يُصَلِّي أَحَدُكُمْ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ الصُّبْحَ يُصَلِّي وَاحِدَةً، فَأَوْتَرَتْ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! رات کی نماز کے متعلق آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو، تم نے رات میں جتنی نماز پڑھی ہو گی، ان سب کی طرف سے یہ وتر کے لئے کافی ہو جائے گی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان تلبية النبي صلى الله عليه وسلم:" لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا، «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ» میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، آپ کا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں آپ کے لئے ہیں، حکومت بھی آپ ہی کی ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رجل: يا رسول الله، من اين نهل؟ قال:" يهل اهل المدينة من ذي الحليفة، واهل الشام من الجحفة، واهل نجد من قرن"، قال: ويقولون: واهل اليمن من يلملم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ نُهِلُّ؟ قَالَ:" يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشام مِنَ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، قَالَ: وَيَقُولُونَ: وَأَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ!! آپ ہمیں کہاں سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن میقات ہے۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بعد میں لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اہل یمن کی میقات یلملم ہے لیکن مجھے یہ یاد نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثني صخر بن جويرية ، عن نافع ، قال: لما خلع الناس يزيد بن معاوية، جمع ابن عمر بنيه واهله، ثم تشهد، ثم قال: اما بعد، فإنا قد بايعنا هذا الرجل على بيع الله ورسوله، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الغادر ينصب له لواء يوم القيامة، يقال: هذه غدرة فلان"، وإن من اعظم الغدر إلا ان يكون الإشراك بالله تعالى ان يبايع رجل رجلا على بيع الله ورسوله، ثم ينكث بيعته، فلا يخلعن احد منكم يزيد، ولا يشرفن احد منكم في هذا الامر فيكون صيلم بيني وبينه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: لَمَّا خَلَعَ النَّاسُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ بَنِيهِ وَأَهْلَهُ، ثُمَّ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ"، وَإِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْغَدْرِ إلَا أَنْ يَكُونَ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ تَعَالَى أَنْ يُبَايِعَ رَجُلٌ رَجُلًا عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يَنْكُثَ بَيْعَتَهُ، فَلَا يَخْلَعَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَزِيدَ، وَلَا يُشْرِفَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَيَكُونَ صَيْلَمٌ بَيْنِي وَبَيْنَهُ.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے سارے بیٹوں اور اہل خانہ کو جمع کیا، شہادتین کا اقرار کیا اور فرمایا: امابعد! ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر اس شخص کی بیعت کی تھی اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر دھوکے باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کی دھوکہ بازی ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کسی کی بیعت کرے اور پھر اسے توڑ دے، اس لئے تم میں سے کوئی بھی یزید کی بیعت توڑے اور نہ ہی امر خلافت میں جھانک کر بھی دیکھے، ورنہ میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہیں رہے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا يحيى بن ابي إسحاق ، حدثني رجل من بني غفار في مجلس سالم بن عبد الله، حدثني فلان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بطعام من خبز ولحم، فقال:" ناولني الذراع" فنوول ذراعا، فاكلها، قال يحيى: لا اعلمه إلا هكذا، ثم قال:" ناولني الذراع" فنوول ذراعا، فاكلها، ثم قال" ناولني الذراع"، فقال: يا رسول الله، إنما هما ذراعان، فقال:" وابيك لو سكت ما زلت اناول منها ذراعا ما دعوت به". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فقال فقال سالم : اما هذه فلا، سمعت عبد الله بن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله تبارك وتعالى ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي مَجْلِسِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي فُلَانٌ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِطَعَامٍ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ، فَقَالَ:" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ" فَنُووِلَ ذِرَاعًا، فَأَكَلَهَا، قَالَ يَحْيَى: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا هَكَذَا، ثُمَّ قَالَ:" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ" فَنُووِلَ ذِرَاعًا، فَأَكَلَهَا، ثُمَّ قَالَ" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا هُمَا ذِرَاعَانِ، فَقَالَ:" وَأَبِيكَ لَوْ سَكَتَّ مَا زِلْتُ أُنَاوَلُ مِنْهَا ذِرَاعًا مَا دَعَوْتُ بِهِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَقَالَ فَقَالَ سَالِمٌ : أَمَّا هَذِهِ فَلَا، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ".
سیدنا سالم رحمہ اللہ کی مجلس میں ایک شخص یہ حدیث بیان کر رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ روٹی اور گوشت کھانے میں پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک دستی دینا“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دستی دے دی گئی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرما لی اس کے بعد فرمایا: ”مجھے ایک اور دستی دو“، وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی تناول فرما لیا اور فرمایا کہ مجھے ایک اور دستی دو، کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ!! ایک بکر ی میں دو ہی دستیاں ہوتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے باپ کی قسم! اگر تو خاموش رہتا تو میں جب تک تم سے دستی مانگتا رہتا مجھے ملتی رہتی“، سیدنا سالم رحمہ اللہ نے یہ حدیث سن کر فرمایا: ”یہ بات تو بالکل نہیں ہے کیونکہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث حديثان: قصة الذراع، وإسنادها ضعيف لإبهام الرجل الغفاري، ولكن لها شاهد من حديث أبى هريرة سيرد 2/ 517 وإسناده حسن، والحديث الثاني: النهي عن الحلف بالآباء وإسناده صحيح، م: 1646.
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن سعيد بن جبير ، قال: كنت عند ابن عمر وسئل عن" نبيذ الجر، فقال: حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم"، فشق علي لما سمعته، فاتيت ابن عباس ، فقلت: إن ابن عمر سئل عن شيء، قال: فجعلت اعظمه! فقال: وما هو؟ قلت: سئل عن نبيذ الجر، فقال: حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: صدق، حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: وما الجر؟ قال: كل شيء صنع من مدر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ وَسُئِلَ عَنْ" نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَشَقَّ عَلَيَّ لَمَّا سَمِعْتُهُ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أُعَظِّمُهُ! فَقَالَ: وَمَا هُوَ؟ قُلْتُ: سُئِلَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقَ، حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَمَا الْجَرُّ؟ قَالَ: كُلُّ شَيْءٍ صُنِعَ مِنْ مَدَرٍ.
سعید بن جبیررحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، کسی نے ان سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے، یہ سن کر مجھ پر بڑی گرانی ہوئی، میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ کسی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: انہوں نے سچ کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے، میں نے پوچھا مٹکے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جو پکی مٹی سے بنائی جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رجل: يا رسول الله، ما نقتل من الدواب إذا احرمنا؟ فقال:" خمس لا جناح على من قتلهن في قتلهن: الحداة، والفارة، والغراب، والعقرب، والكلب العقور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقْتُلُ مِنَ الدَّوَابِّ إِذَا أَحْرَمْنَا؟ فَقَالَ:" خَمْسٌ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ فِي قَتْلِهِنَّ: الْحِدَأَةُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْغُرَابُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال پوچھا: یا رسول اللہ! احرام باندھنے کے بعد ہم کون سے جانور قتل کر سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانوروں کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بچھو، چوہے، چیل، کوے اور باؤلے کتے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: انتهيت إلى الناس وقد فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الخطبة، فقلت: ماذا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالوا:" نهى عن المزفت والدباء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّاسِ وَقَدْ فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخُطْبَةِ، فَقُلْتُ: مَاذَا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا:" نَهَى عَنْ الْمُزَفَّتِ وَالدُّبَّاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ منبر پر جلوہ افروز دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی، میں تیزی سے مسجد میں داخل ہوا اور ایک جگہ جا کر بیٹھ گیا، لیکن ابھی کچھ سننے کا موقعہ نہ ملا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اتر آئے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ لوگوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: لا اعلمه إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من حلف فاستثنى فهو بالخيار، إن شاء ان يمضي على يمينه، وإن شاء ان يرجع غير حنث، او قال: غير حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى فَهُوَ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَاءَ أَنْ يَمْضِيَ عَلَى يَمِينِهِ، وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَرْجِعَ غَيْرَ حَنِثٍ، أَوْ قَالَ: غَيْرَ حَرَجٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے غالباً مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لے اسے اختیار ہے، اگر اپنی قسم پوری کرنا چاہے تو کر لے اور اگر اس سے رجوع کرنا چاہے تو حانث ہوئے بغیررجوع کر لے۔