(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، اخبرني الثقة ، او من لا اتهم، عن ابن عمر ، انه خطب إلى نسيب له ابنته، قال: فكان هوى ام المراة في ابن عمر، وكان هوى ابيها في يتيم له، قال: فزوجها الاب يتيمه ذلك، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" آمروا النساء في بناتهن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، أَخْبَرَنِي الثِّقَةُ ، أَوْ مَنْ لَا أَتَّهِمُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ خَطَبَ إِلَى نَسِيبٍ لَهُ ابْنَتَهُ، قَالَ: فَكَانَ هَوَى أُمِّ الْمَرْأَةِ فِي ابْنِ عُمَرَ، وَكَانَ هَوَى أَبِيهَا فِي يَتِيمٍ لَهُ، قَالَ: فَزَوَّجَهَا الْأَبُ يَتِيمَهُ ذَلِكَ، فَجَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمِّرُوا النِّسَاءَ فِي بَنَاتِهِنَّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے ایک ہم نسب کی بیٹی کے لئے پیغام نکاح بھیجا، اس لڑکی کی ماں یہ چاہتی تھی کہ اس کا نکاح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہو جائے اور باپ کی خواہش اپنے یتیم بھتیجے سے شادی کرنے کی تھی، بالآخر اس کے باپ نے اس کی شادی اپنے یتیم بھتیجے سے کر دی، وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا قصہ ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹیوں کے معاملے میں اپنی عورتوں سے بھی مشورہ کر لیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين غير أن فيه رجلا مبهما حدث عنه إسماعيل بن أمية ووثقه، ولهذه القصة طرق أخرى تشدها وتحسنها وتبين أن لها أصلا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمریٰ اور رقبٰی (کسی کی موت تک کوئی مکان یا زمین دینے) کی کوئی حیثیت نہیں ہے“ اور فرمایا: ”جس کے لئے عمریٰ رقبیٰ کیا گیا وہ اسی کا ہے، زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، حبيب بن أبى ثابت مدلس، وقد عنعن، وقد صرح عند عبدالرزاق أنه لم يسمع من ابن عمر إلا الحديث فى العمري، ولم يخبر عطاء فى العمري شيئا.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن ابي رواد ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، فراى في القبلة نخامة، فلما قضى صلاته، قال:" إن احدكم إذا صلى في المسجد، فإنه يناجي ربه، وإن الله تبارك وتعالى يستقبله بوجهه، فلا يتنخمن احدكم في القبلة، ولا عن يمينه، ثم دعا بعود فحكه، ثم دعا بخلوق فخضبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَرَأَى فِي الْقِبْلَةِ نُخَامَةً، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ:" إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ، فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ، وَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَسْتَقْبِلُهُ بِوَجْهِهِ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْقِبْلَةِ، وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ دَعَا بِعُودٍ فَحَكَّهُ، ثُمَّ دَعَا بِخَلُوقٍ فَخَضَبَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز مسجد میں قبلہ کی جانب بلغم لگا ہوا دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے صاف کر دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ان سے ناراض ہو کر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے، تو اللہ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے اس لئے تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں اپنے چہرے کے سامنے ناک صاف نہ کرے۔ اور نہ ہی دائیں جانب“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی منگوا کر اس سے اسے ہٹا دیا اور ”خلوق“ نامی خوشبو منگوا کر وہاں لگا دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا الثوري ، عن ابي إسحاق ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اكثر من خمس وعشرين مرة، او اكثر من عشرين مرة، قال عبد الرزاق: وانا اشك" يقرا في ركعتي الفجر: قل يا ايها الكافرون، و قل هو الله احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مَرَّةً، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَأَنَا أَشُكُّ" يَقْرَأُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر سے پہلے کی سنتوں میں بیسیوں مرتبہ سورۃ کافروں اور سورۃ اخلاص پڑھی ہو گی۔
رقم الحديث: 4769 (حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا شيخ من اهل نجران، حدثني محمد بن عبد الرحمن بن البيلماني ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، او ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" ما الذي يجوز في الرضاع من الشهود؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: رجل او امراة".رقم الحديث: 4769 (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَا الَّذِي يَجُوزُ فِي الرَّضَاعِ مِنَ الشُّهُودِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَجُلٌ أَوْ امْرَأَةٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے یا کسی اور آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ رضاعت کے ثبوت کے لئے کتنے گواہوں کا ہونا کافی ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مرد اور ایک عورت۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لضعف الشيخ من أهل نجران، وهو محمد ابن عثيم.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے یا کسی اور آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ رضاعت کے ثبوت کے لئے کتنے گواہوں کا ہونا کافی ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مرد اور ایک عورت۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، وهو مكرر ما قبله .
طاؤس کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی نبیذ سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير انه سمع ابن عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى عن الجر والمزفت والدباء. قال ابو الزبير: وسمعت جابر بن عبد الله يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الجر والمزفت والنقير، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا لم يجد شيئا ينبذ له فيه، نبذ له في تور من حجارة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى عَنِ الْجَرِّ وَالْمُزَفَّتِ وَالدُّبَّاءِ. قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: وَسَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَرِّ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِيرِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَمْ يَجِدْ شَيْئًا يُنْبَذُ لَهُ فِيهِ، نُبِذَ لَهُ فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹکے اور کدو کے برتن کو استعمال کر نے سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث اس اضافے کے ساتھ سنی ہے کہ اگر کوئی ایسا برتن نہ ملتا جس میں نبیذ بنائی جا سکے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پتھر کے برتن میں نبیذ بنا لی جاتی تھی۔