(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن عمرو ، عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب ، عن ابن عمر ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبر، فقال:" إن هذا ليعذب الآن ببكاء اهله عليه"، فقالت عائشة: غفر الله لابي عبد الرحمن، إنه وهل، إن الله تعالى يقول: ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164، إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذا ليعذب الآن واهله يبكون عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْر، فَقَالَ:" إِنَّ هَذَا لَيُعَذَّبُ الْآنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّهُ وَهِلَ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا لَيُعَذَّبُ الْآنَ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قبر کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ اس وقت اسے اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن (ابن عمر رضی اللہ عنہما) کی بخشش فرمائے انہیں وہم ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اس وقت اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر رو رہے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1286، م: 928، وهذا إسناد حسن
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد ، عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب ، قال: قال عبد الله بن عمر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشهر تسع وعشرون، وصفق بيديه مرتين، ثم صفق الثالثة، وقبض إبهامه"، فقالت عائشة: غفر الله لابي عبد الرحمن، إنه وهل، إنما هجر رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه شهرا، فنزل لتسع وعشرين، فقالوا: يا رسول الله، إنك نزلت لتسع وعشرين! فقال:" إن الشهر يكون تسعا وعشرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، وَصَفَّقَ بِيَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ صَفَّقَ الثَّالِثَةَ، وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّهُ وَهِلَ، إِنَّمَا هَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ شَهْرًا، فَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ نَزَلَتْ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ! فَقَالَ:" إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہینہ ٢٩ دن کا ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دس دس کا اشارہ کیا اور تیسری مرتبہ اشارہ کرتے وقت انگوٹھا بند کر لیا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث معلوم ہونے پر فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن کی بخشش فرمائے انہیں وہم ہو گیا ہے دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے کے لئے ازاواج مطہرات کو چھوڑ دیا تھا ٢٩ دن ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانے سے نیچے آ گئے لوگوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ تو ٢٩ ویں دن ہی نیچے آگئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات مہینہ ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا إسماعيل ، عن سالم البراد ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من صلى على جنازة فله قيراط"، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم" ما القيراط"؟ قال:" مثل احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ"، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَا الْقِيرَاطُ"؟ قَالَ:" مِثْلُ أُحُدٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جنازے کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھے اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا“ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیراط کیا ہوتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد ، يعني ابن إسحاق، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على هذا المنبر، وهو ينهى الناس إذا احرموا عما يكره لهم:" لا تلبسوا العمائم، ولا القمص، ولا السراويلات، ولا البرانس، ولا الخفين، إلا ان يضطر مضطر إليهما، فيقطعهما اسفل من الكعبين، ولا ثوبا مسه الورس ولا الزعفران"، قال:" وسمعته ينهى النساء عن القفاز، والنقاب، وما مس الورس والزعفران من الثياب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ ، يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَنْهَى النَّاسَ إِذَا أَحْرَمُوا عَمَّا يُكْرَهُ لَهُمْ:" لَا تَلْبَسُوا الْعَمَائِمَ، وَلَا الْقُمُصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخُفَّيْنِ، إِلَّا أَنْ يُضْطَرَّ مُضْطَرٌّ إِلَيْهِمَا، فَيَقْطَعَهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ وَلَا الزَّعْفَرَانُ"، قَالَ:" وَسَمِعْتُهُ يَنْهَى النِّسَاءَ عَنِ الْقُفَّازِ، وَالنِّقَابِ، وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اس منبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے کے بعد لوگوں کو مکروہات سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، قمیض، شلوار، عمامہ، ٹوپی اور موزے مت پہنو، الاّ یہ کہ کسی کو جوتے نہ ملیں جس شخص کو جوتے نہ ملیں اسے چاہئے کہ وہ موزوں کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لے، اسی طرح ایسا کپڑا جس پر ورس نامی گھاس یا زعفران لگی ہوئی ہو، وہ بھی محرم نہیں پہن سکتا نیز میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت احرام میں خواتین کو دستانے اور نقاب پہننے کی ممانعت کرتے ہوئے سنا ہے، نیز ان کپڑوں کی جنہیں ورس یا زعفران لگی ہوئی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5794، محمد ابن إسحاق. وإن كان مدلسا وقد عنعن. قد توبع
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پھلوں کی بیع اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک وہ اچھی طرح پک نہ جائیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1535، وهذا إسناد حسن من أجل محمد بن عمرو
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ سفر میں تھے ایک جگہ سے گزرتے گزرتے انہوں نے راستہ بدل لیا، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا اس لئے میں نے بھی ایسا ہی کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى ، يعني ابن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان اخبره، ان رجلا اخبره، عن ابيه يحيى ، انه كان مع عبد الله بن عمر، وان عبد الله بن عمر قال له: في الفتنة لا ترون القتل شيئا؟! وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للثلاثة:" لا ينتجي اثنان دون صاحبهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ يَحْيَى ، أَنَّهُ كَانَ مَع عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ لَهُ: فِي الْفِتْنَةِ لَا تَرَوْنَ الْقَتْلَ شَيْئًا؟! وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلثَّلاَثَةَ:" لَا يَنْتَجِي اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا".
یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے فتنہ کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے کہ تم لوگ کسی کو قتل کرنے کی کوئی اہمیت ہی نہیں سمجھتے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں کے بارے میں ہدایت دی تھی کہ اپنے ایک ساتھی کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی میں باتیں نہ کر یں۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 6288، م: 2183، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل الذى رواه عن يحيي، ولجهالة حال يحيي بن حبان فلم يروي عنه سوي ابنه محمد
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا المسعودي ، عن ابي جعفر محمد بن علي ، قال: بينما عبيد بن عمير يقص وعنده عبد الله بن عمر ، فقال عبيد بن عمير: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثل المنافق كشاة من بين ربيضين، إذا اتت هؤلاء نطحنها، وإذا اتت هؤلاء نطحنها"، فقال ابن عمر: ليس كذلك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كشاة بين غنمين"، قال: فاحتفظ الشيخ، وغضب، فلما راى ذلك عبد الله، قال: اما إني لو لم اسمعه لم ارد ذلك عليك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، قَالَ: بَيْنَمَا عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ يَقُصُّ وَعِنْدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، فَقَالَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَشَاةٍ مِنْ بَيْنِ رَبِيضَيْنِ، إِذَا أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْنَهَا، وَإِذَا أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْنَهَا"، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَيْسَ كَذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَشَاةٍ بَيْنَ غَنَمَيْنِ"، قَالَ: فَاحْتَفَظَ الشَّيْخُ، وَغَضِبَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ لَمْ أَرُدَّ ذَلِكَ عَلَيْكَ.
ابوجعفر محمد بن علی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہاں تشریف فرما تھے عبید بن عمیر کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”منافق کی مثال اس بکری کی سی ہے جو ریوڑوں کے درمیان ہو اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں اور اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر «ربيضين» کے بجائے «غنمين» کا لفظ استعمال کیا تھا، اس پر سیدنا عبید بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو نہ سنا ہوتا تو میں آپ کی بات کی تردید نہ کرتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، المسعودي اختلط و سماع يزيد منه بعد الاختلاط
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يزيد ، اخبرنا ابن عون ، قال: كتبت إلى نافع اساله، ما اقعد ابن عمر رضي الله عن الغزو؟ او عن القوم إذا غزوا، بما يدعون العدو قبل ان يقاتلوهم؟ وهل يحمل الرجل إذا كان في الكتيبة بغير إذن إمامه؟ فكتب إلي إن ابن عمر قد كان يغزو ولده، ويحمل على الظهر، وكان يقول: إن" افضل العمل بعد الصلاة الجهاد في سبيل الله تعالى"، وما اقعد ابن عمر عن الغزو إلا وصايا لعمر وصبيان صغار وضيعة كثيرة. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقد" اغار رسول الله صلى الله عليه وسلم على بني المصطلق وهم غارون يسقون على نعمهم، فقتل مقاتلتهم، وسبى سباياهم، واصاب جويرية بنت الحارث، قال: فحدثني بهذا الحديث ابن عمر، وكان في ذلك الجيش، وإنما كانوا يدعون في اول الإسلام، واما الرجل فلا يحمل على الكتيبة إلا بإذن إمامه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ، مَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْغَزْوِ؟ أَو عَنِ الْقَوْمِ إِذَا غَزَوْا، بِمَا يَدْعُونَ الْعَدُوَّ قَبْلَ أَنْ يُقَاتِلُوهُمْ؟ وَهَلْ يَحْمِلُ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِي الْكَتِيبَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ إِمَامِهِ؟ فَكَتَبَ إِلَيَّ إِنَّ ابْنَ عُمَر قَدْ كَانَ يَغْزُو وَلَدُهُ، وَيَحْمِلُ عَلَى الظَّهْرِ، وَكَانَ يَقُولُ: إِنَّ" أَفْضَلَ الْعَمَلِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى"، وَمَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْغَزْوِ إِلَّا وَصَايَا لِعُمَرَ وَصِبْيَانٌ صِغَارٌ وَضَيْعَةٌ كَثِيرَةٌ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَدْ" أَغَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ يَسْقُونَ عَلَى نَعَمِهِمْ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ، وَسَبَى سَبَايَاهُمْ، وَأَصَابَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ ابْنُ عُمَرَ، وَكَانَ فِي ذَلِكَ الْجَيْشِ، وَإِنَّمَا كَانُوا يُدْعَوْنَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ فَلَا يَحْمِلُ عَلَى الْكَتِيبَةِ إِلَّا بِإِذْنِ إِمَامِهِ".
ابن عون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خط لکھ کر سیدنا نافع رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جہاد میں شرکت کیوں چھوڑ دی ہے، جبکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ اس کی دعا کرتے تھے اور کیا کوئی شخص اپنے امیر کی اجازت کے بغیر لشکر پر حملہ کر سکتا ہے؟ انہوں نے مجھے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ہر جہاد میں شریک ہوئے ہیں اور جانور کی پشت پر سوار رہے ہیں اور وہ تو خود فرماتے تھے کہ نماز کے بعد سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے، اب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جہاد میں شریک نہ ہونا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کچھ وصیتوں کو پورا کرنے میں مصروفیت، چھوٹے بچوں اور زیادہ زمینوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق پر اس وقت حملہ کیا تھا جبکہ وہ غافل تھے اور اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنگجو افراد کو قتل کروا دیا، ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں سیدہ جویرہ رضی اللہ عنہ آ گئیں۔ یہ حدیث مجھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتائی ہے جو کہ اس لشکر میں شریک تھے اور وہ لوگ پہلے اسلام کی دعوت دیتے تھے باقی کوئی شخص اپنے امیر کی اجازت کے بغیر کسی لشکر پر حملہ نہیں کر سکتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتناجى اثنان دون الثالث، إذا لم يكن معهم غيرهم". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال:" ونهى النبي صلى الله عليه وسلم ان يخلف الرجل الرجل في مجلسه"، وقال:" إذا رجع فهو احق به". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال:" ونهى النبي صلى الله عليه وسلم ان يخلف الرجل الرجل في مجلسه"، وقال:" إذا رجع فهو احق به".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ غَيْرُهُمْ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ:" وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَخْلُفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي مَجْلِسِهِ"، وَقَالَ:" إِذَا رَجَعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ:" وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَخْلُفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي مَجْلِسِهِ"، وَقَالَ:" إِذَا رَجَعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کر نے لگا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 6288، م: 2183، وهذا إسند ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن .