(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، قال: حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إنما مثل القرآن مثل الإبل المعقلة، إن تعاهدها صاحبها بعقلها، امسكها عليه، وإن اطلق عقلها، ذهبت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّمَا مَثَلُ الْقُرْآنِ مَثَلُ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ تَعَاهَدَهَا صَاحِبُهَا بِعُقُلِهَا، أَمْسَكَهَا عَلَيْهِ، وَإِنْ أَطْلَقَ عُقُلَهَا، ذَهَبَتْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حامل قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کے مالک کی طرح ہے جسے اس کا مالک باندھ کر رکھے تو وہ اس کے قابو میں رہتا ہے اور اگر کھلاچھوڑ دے تو وہ نکل جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن محمد بن سيرين ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" صلاة المغرب وتر النهار، فاوتروا صلاة الليل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةُ الْمَغْرِبِ وِتْرُ النَّهَارِ، فَأَوْتِرُوا صَلَاةَ اللَّيْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مغرب کی نماز دن کا وتر ہیں، سو تم رات کا وتر بھی ادا کیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا سليمان التيمي ، عن طاوس ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خفت الصبح، فاوتر بواحدة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی نماز کے متعلق فرمایا: ”تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب ”صبح“ ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ بطور وتر کے ایک رکعت اور ملا لو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا سعيد بن زياد الشيباني ، حدثنا زياد بن صبيح الحنفي ، قال: كنت قائما اصلي إلى البيت، وشيخ إلى جانبي، فاطلت الصلاة، فوضعت يدي على خصري، فضرب الشيخ صدري بيده ضربة لا يالو، فقلت في نفسي: ما رابه مني؟ فاسرعت الانصراف، فإذا غلام خلفه قاعد، فقلت: من هذا الشيخ؟ قال: هذا عبد الله بن عمر ، فجلست حتى انصرف، فقلت: ابا عبد الرحمن ما رابك مني؟ قال: انت هو؟ قلت: نعم، قال:" ذاك الصلب في الصلاة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ زِيَادٍ الشَّيْبَانِيُّ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ صُبَيْحٍ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا أُصَلِّي إِلَى الْبَيْتِ، وَشَيْخٌ إِلَى جَانِبِي، فَأَطَلْتُ الصَّلَاةَ، فَوَضَعْتُ يَدَيَّ عَلَى خَصْرِي، فَضَرَبَ الشَّيْخُ صَدْرِي بِيَدِهِ ضَرْبَةً لَا يَأْلُو، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: مَا رَابَهُ مِنِّي؟ فَأَسْرَعْتُ الِانْصِرَافَ، فَإِذَا غُلَامٌ خَلْفَهُ قَاعِدٌ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا الشَّيْخُ؟ قَالَ: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، فَجَلَسْتُ حَتَّى انْصَرَفَ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا رَابَكَ مِنِّي؟ قَالَ: أَنْتَ هُوَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" ذَاكَ الصَّلْبُ فِي الصَّلَاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُ".
زیاد بن صبیح حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیت اللہ کے سامنے کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، میرے پہلو میں ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے نماز کو لمبا کر دیا اور ایک مرحلے پر اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ لیا، شیخ مذکور نے یہ دیکھ کر میرے سینے پر ایسا ہاتھ مارا کہ کسی قسم کی کسر نہ چھوڑی، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ انہیں مجھ سے کیا پریشانی ہے؟ چنانچہ میں نے جلدی سے نماز کو مکمل کیا۔ دیکھا تو ایک غلام ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں، میں بیٹھ گیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو گئے، میں نے ان سے عرض کیا کہ اے عبدالرحمن! آپ کو مجھ سے کیا پریشانی تھی؟ انہوں نے پوچھا: کیا تم وہی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: نماز میں اتنی سختی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے تو ہم سے بعض لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور بعض تلبیہ پڑھ رہے تھے، جبکہ ہم تکبیر کہہ رہے تھے، راوی نے کہا کہ تعجب ہے تم لوگوں پر کہ تم نے ان سے نہیں پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کر رہے تھے (تکبیر یا تلبیہ)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حجاج بن ارطاة ، عن وبرة سمعت ابن عمر ، يقول:" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الذئب للمحرم، يعني، والفارة، والغراب والحدا، فقيل له: فالحية والعقرب؟ فقال: قد كان يقال ذاك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ وَبَرَةَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الذِّئْبِ لِلْمُحْرِمِ، يَعْنِي، وَالْفَأْرَةَ، وَالْغُرَابَ وَالْحِدَأَ، فَقِيلَ لَهُ: فَالْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ؟ فَقَالَ: قَدْ كَانَ يُقَالُ ذَاكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو چوہے، کوے اور بھیڑیئے، کو مار دینے کا حکم دیا ہے کسی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سانپ اور بچھو کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے کہا کہ ان کے متعلق بھی کہا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن عكرمة بن خالد المخزومي ، عن ابن عمر ان رجلا اشترى نخلا قد ابرها صاحبها، فخاصمه إلى النبي صلى الله عليه وسلم،" فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الثمرة لصاحبها الذي ابرها، إلا ان يشترط المشتري".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا اشْتَرَى نَخْلًا قَدْ أَبَّرَهَا صَاحِبُهَا، فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الثَّمَرَةَ لِصَاحِبِهَا الَّذِي أَبَّرَهَا، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُشْتَرِي".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کھجور کا پیوندکاری شدہ درخت خریدا، ان دونوں کا جھگڑا ہو گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ جھگڑا پیش ہوا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ پھل درخت کے مالک کا ہے جس نے اس کی پیوندکاری کی ہے الاّ یہ کہ مشتری (خریدنے والا) نے پھل سمیت درخت خریدنے کی شرط لگائی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2206، م: 1543، وهذا إسناد منقطع
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا جرير بن حازم . ح وإسحاق بن عيسى ، قال: حدثنا جرير بن حازم ، عن الزبير بن الخريت ، عن الحسن بن هادية ، قال: لقيت ابن عمر ، قال إسحاق:، فقال لي: ممن انت؟ قلت: من اهل عمان، قال: من اهل عمان؟ قلت: نعم، قال: افلا احدثك ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: بلى، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إني لاعلم ارضا يقال لها: عمان، ينضح بجانبها"، وقال إسحاق:" بناحيتها البحر، الحجة منها افضل من حجتين من غيرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ . ح وَإِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْخِرِّيتِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ هَادِيَةَ ، قَالَ: لَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ ، قَال إِسْحَاقُ:، فَقَالَ لِي: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ عُمَانَ، قَالَ: مِنْ أَهْلِ عُمَانَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَلَا أُحَدِّثُكَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ أَرْضًا يُقَالُ لَهَا: عُمَانُ، يَنْضَحُ بِجَانِبِهَا"، وَقَالَ إِسْحَاقُ:" بِنَاحِيَتِهَا الْبَحْرُ، الْحَجَّةُ مِنْهَا أَفْضَلُ مِنْ حَجَّتَيْنِ مِنْ غَيْرِهَا".
حسن بن ہادیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل عمان میں سے ہوں، انہوں نے فرمایا کہ واقعی؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، فرمایا: پھر کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا علاقہ جانتا ہوں جسے ”عمان“ کہا جاتا ہے، اس کے ایک جانب سمندر بہتا ہے وہاں سے آ کر ایک حج کرنا دوسرے علاقے سے دو حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسن بن هادية انفرد بالرواية عنه الزبير بن الخيريت وليس له إلا هذا الحديث، و ذكره ابن حبان فى «الثقات» : 123/4، ولم يؤثر توثيقه عن أحد غيره
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" دفع خيبر إلى اهلها بالشطر، فلم تزل معهم حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم كلها، وحياة ابي بكر، وحياة عمر، حتى بعثني عمر لاقاسمهم، فسحروني، فتكوعت يدي، فانتزعها عمر منهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" دَفَعَ خَيْبَرَ إِلَى أَهْلِهَا بِالشَّطْرِ، فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُمْ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّهَا، وَحَيَاةَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَيَاةَ عُمَرَ، حَتَّى بَعَثَنِي عُمَرُ لِأُقَاسِمَهُمْ، فَسَحَرُونِي، فَتَكَوَّعَتْ يَدِي، فَانْتَزَعَهَا عُمَرُ مِنْهُمْ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا علاقہ وہاں کے رہنے والوں ہی کے پاس نصف پیداوار کے عوض رہنے دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ میں ان کے ساتھ یہی معاملہ رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بھی اسی طرح رہا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بھی اسی طرح رہا، ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے خیبر بھیجا تاکہ ان کے حصے تقسیم کر دوں، تو وہاں کے یہودیوں نے مجھ پر جادو کر دیا اور میرے ہاتھ کی ہڈی کا جوڑ ہل گیا، اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبیر کو ان سے چھین لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحجاج بن أرطاة، وقد سلف نحوه بإسناد حسن فى «مسند عمر بن الخطاب» رقم: 90