(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، حدثنا ابو جناب ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم عند هذه السارية، وهي يومئذ جذع نخلة، يعني يخطب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَنَابٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذِهِ السَّارِيَةِ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ جِذْعُ نَخْلَةٍ، يَعْنِي يَخْطُبُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اس وقت یہ کھجور کا تنا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف أبى جناب، و أبوه أبو حية فى عداد المجهولين
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا قدامة بن موسى ، عن شيخ ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا صلاة بعد طلوع الفجر إلا ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا قُدَامَةُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْخٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”طلوع صبح صادق کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے سوائے فجر کی دو سنتوں کے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه و شواهده، وإسناده هنا ضعيف، فهو معضل وفيه راو مبهم، أما الإعضال، فقد سقط منه راويان هما أبو علقمة مولي ابن عباس و يسار مولي ابن عمر وأما الراوي المبهم، فهو أيوب بن حصين، وقيل: محمد بن حصين، وهو مجهول الحال
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن توبة العنبري عن مورق العجلي ، قال: قلت لابن عمر :" اتصلي الضحى؟ قال: لا، قلت صلاها عمر؟ قال: لا، قلت: صلاها ابو بكر؟ قال: لا، قلت: اصلاها النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا إخاله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ تَوْبَةَ العنبري عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ :" أَتُصَلِّي الضُّحَى؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ صَلَّاهَا عُمَرُ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: صَلَّاهَا أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: أَصَلَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا إِخَالُهُ".
مورق عجلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، میں نے پوچھا: سیدنا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے؟ فرمایا: نہیں، میں نے پوچھا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے؟ فرمایا: نہیں، میں نے پوچھا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے؟ فرمایا: میرا خیال نہیں (ہے کہ وہ پڑھتے ہوں گے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا العمري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثل القرآن مثل الإبل المعقلة، إن تعاهدها صاحبها امسكها، وإن تركها ذهبت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْقُرْآنِ مَثَلُ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ تَعَاهَدَهَا صَاحِبُهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ تَرَكَهَا ذَهَبَتْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جسے اس کا مالک اگر باندھ کر رکھے تو وہ اس کے قابو میں رہتا ہے اور اگر کھلا چھوڑ دے تو وہ نکل جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 789، العمري . وإن كان فيه ضعف . متابع
داؤد بن ابی عاصم ثقفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منٰی میں نماز کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں! میں ان پر ایمان لا کر راہ راست پر بھی آیا ہوں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر وہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عيسى بن حفص بن عاصم ، عن ابيه ، رضي الله تعالى عنهما، قال: خرجنا مع ابن عمر، فصلينا الفريضة، فراى بعض ولده يتطوع، فقال ابن عمر: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر وعثمان في السفر، فلم يصلوا قبلها ولا بعدها"، قال ابن عمر: ولو تطوعت، لاتممت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ، فَصَلَّيْنَا الْفَرِيضَةَ، فَرَأَى بَعْضَ وَلَدِهِ يَتَطَوَّعُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ فِي السَّفَرِ، فَلَمْ يُصَلُّوا قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَلَوْ تَطَوَّعْتُ، لَأَتْمَمْت.
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ سفر پر نکلے، ہم نے فرض نماز پڑھی، اتنی دیر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نظر اپنے کسی بیٹے پر پڑی جو نوافل ادا کر رہا تھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور خلفاء ثلاثہ کے ساتھ سفر میں نماز پڑھی ہے لیکن یہ سب فرائض سے پہلے کوئی نماز پڑھتے تھے اور نہ بعد میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مزید فرمایا کہ اگر میں نفل پڑھتا تو اپنی فرض نماز مکمل نہ کر لیتا (قصرکیوں کرتا؟)۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" قرا في الركعتين قبل الفجر والركعتين بعد المغرب، بضعا وعشرين مرة، او بضع عشرة مرة قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَرَأَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ وَالرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، بِضْعًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً، أَوْ بِضْعَ عَشْرَةَ مَرَّةً قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر سے پہلے کی سنتوں میں اور مغرب کے بعد کی دو سنتوں میں بیسیوں یا دسیوں مرتبہ سورت کافروں اور سورت اخلاص پڑھی ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ليث ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض جسدي، فقال: يا عبد الله،" كن في الدنيا كانك غريب او عابر سبيل، واعدد نفسك في الموتى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ،" كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَاعْدُدْ نَفْسَكَ فِي الْمَوْتَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ میرے جسم کے کسی حصے کو پکڑ کر فرمایا: ”اے عبداللہ! دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی مسافر یا راہ گزر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون قوله: «واعداد نفسك فى الموتي» فهو حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث، قوله: «كن فى الدنيا ........» أخرجه البخاري مطولا: 6416