سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی آدمی کو کافر کہتا ہے اگر وہ واقعی کافر ہو تو ٹھیک ورنہ وہ خود کافر ہو کر لوٹتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط بن محمد ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن عبد الله ، عن سعد مولى طلحة، عن ابن عمر ، قال: لقد سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا لو لم اسمعه إلا مرة او مرتين، حتى عد سبع مرار، ولكن قد سمعته اكثر من ذلك، قال:" كان الكفل من بني إسرائيل لا يتورع من ذنب عمله، فاتته امراة، فاعطاها ستين دينارا على ان يطاها، فلما قعد منها مقعد الرجل من امراته ارعدت وبكت، فقال: ما يبكيك؟ اكرهتك؟ قالت: لا، ولكن هذا عمل لم اعمله قط، وإنما حملني عليه الحاجة، قال: فتفعلين هذا ولم تفعليه قط؟ قال: ثم نزل، فقال: اذهبي، فالدنانير لك، ثم قال: والله لا يعصي الله الكفل ابدا، فمات من ليلته، فاصبح مكتوبا على بابه قد غفر الله عز وجل للكفل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَعْدٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مِرَارٍ، وَلَكِنْ قَدْ سَمِعْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" كَانَ الْكِفْلُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَهُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَأَعْطَاهَا سِتِّينَ دِينَارًا عَلَى أَنْ يَطَأَهَا، فَلَمَّا قَعَدَ مِنْهَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنَ امْرَأَتِهِ أَرْعِدَتْ وَبَكَتْ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ أَكْرَهْتُكِ؟ قَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ هَذَا عَمَلٌ لَمْ أَعْمَلْهُ قَطُّ، وَإِنَّمَا حَمَلَنِي عَلَيْهِ الْحَاجَةُ، قَالَ: فَتَفْعَلِينَ هَذَا وَلَمْ تَفْعَلِيهِ قَطُّ؟ قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ، فَقَالَ: اذْهَبِي، فَالدَّنَانِيرُ لَكِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَا يَعْصِي اللَّهَ الْكِفْلُ أَبَدًا، فَمَاتَ مِنْ لَيْلَتِهِ، فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَى بَابِهِ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْكِفْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر میں نے ایک دو نہیں سات یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو میں اس کو بیان نہ کرتا کہ بنی اسرائیل میں ”کفل“ نامی ایک آدمی تھا، جو کسی گناہ سے نہ بچتا تھا، ایک مرتبہ اس کے پاس ایک عورت آئی اس نے اسے اس شرط پر ساٹھ دینار دئیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے، جب وہ اس کیفیت پر بیٹھا جس کیفیت پر مرد کسی عورت کے ساتھ بیٹھتا ہے، تو وہ کانپنے اور رونے لگی، اس نے پوچھا کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہیں اس کام پر مجبور کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں لیکن میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا، مجبوری نے مجھے یہ کام کر نے کرے لئے بےبس کر دیا، یہ سن کر کفل کہنے لگا کہ تم یہ کام کر رہی ہو؟ حالانکہ تم نے اس سے پہلے یہ کام نہیں کیا؟ یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا اور اس سے کہا جاؤ، وہ دینار بھی تمہارے ہوئے اور کہنے لگا کہ اب کفل کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا اسی رات وہ مر گیا صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے کفل کو معاف کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سعد مولي طلحة لم يرو عنه غير عبد الله بن عبد الله. وهو أبو جعفر الرازي. وقال أبو حاتم: لا يعرف هذا الرجل إلا بحديث واحد، يعني به حديث الكفل هذا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو تنہا سفر کرنے کا نقصان معلوم ہو جائے تو رات کے وقت کوئی بھی تنہا سفر نہ کرے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی دعائیں قبول ہوں اور اس کی پریشانی دور ہوں اسے چاہئے کہ تنگدست کے لئے کشادگی پیدا کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف زيد العمي، ثم هو منقطع، زيد روايته عن الصحابة مرسلة
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني عكرمة بن عمار ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة، فقال:" راس الكفر من هاهنا، من حيث يطلع قرن الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ:" رَأْسُ الْكُفْرِ مِنْ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”فتنہ یہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2905، وهذا إسناد حسن، عكرمة بن عمار. وإن احتج به مسلم. حسن الحديث، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن العمري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الوصال في الصيام، فقيل له: إنك تفعله؟ فقال:" إني لست كاحدكم، إني اظل يطعمني ربي ويسقيني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْعُمَرِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْوِصَالِ فِي الصِّيَامِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ تَفْعَلُهُ؟ فَقَالَ:" إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ، إِنِّي أَظَلُّ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں ایک ہی سحری سے مسلسل کئی روزے رکھے، لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روکا تو وہ کہنے لگے کہ آپ ہمیں تو مسلسل کئی دن کا روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں اور خود رکھ رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے تو اللہ کی طرف سے کھلایاپلایا جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1922، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله العمري، لكنه متابع
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو یا تین مٹکوں کے برابر ہو تو اس میں گندگی سرایت نہیں کر تی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إ سناد جيد دون قوله: «أو ثلاث»