(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: سمع عمرو : ابن عمر كنا نخابر ولا نرى بذلك باسا، حتى زعم رافع بن خديج ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه، فتركناه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو : ابْنِ عُمَرَ كُنَّا نُخَابِرُ وَلَا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتَّى زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، فَتَرَكْنَاهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین مزارعت پر دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے بعد میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے چنانچہ ہم نے اسے چھوڑ دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: سمع عمرو : سعيد بن جبير ، يقول: سمعت ابن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمتلاعنين:" حسابكما على الله، احدكما كاذب، لا سبيل لك عليها"، قال: يا رسول الله، مالي؟ قال:" لا مال لك، إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها، فذاك ابعد لك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو : سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ:" حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي؟ قَالَ:" لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے ارشاد فرمایا کہ تم دونوں کا حساب اللہ کے ذمے ہے، تم میں سے کوئی ایک تو یقیناً جھوٹا ہے اور اب تمہیں اس عورت پر کوئی اختیار نہیں ہے، اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا مال؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کوئی مال نہیں ہے، اگر اس پر تمہارا الزام سچا ہے تو اسی مال کے عوض تم نے اس کی شرمگاہ کو اپنے لئے حلال کیا تھا اور اگر اس پر تمہارا الزام جھوٹا ہے پھر تو تمہاے لئے یہ بات بہت بعید ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، حدثنا عمرو ، عن ابي العباس ، عن عبد الله بن عمر ، قيل لسفيان: ابن عمرو؟ قال: لا، ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم لما حاصر اهل الطائف، ولم يقدر منهم على شيء، قال:" إنا قافلون غدا إن شاء الله"، فكان المسلمين كرهوا ذلك، فقال:" اغدوا"، فغدوا على القتال، فاصابهم جراح، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا قافلون غدا إن شاء الله، فسر المسلمون، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قِيلَ لِسُفْيَانَ: ابْنُ عَمْرٍو؟ قَالَ: لَا، ابْنُ عُمَرَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَاصَرَ أَهْلَ الطَّائِفِ، وَلَمْ يَقْدِرْ مِنْهُمْ عَلَى شَيْءٍ، قَالَ:" إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، فَكَأَنَّ الْمُسْلِمِينَ كَرِهُوا ذَلِكَ، فَقَالَ:" اغْدُوا"، فَغَدَوْا عَلَى الْقِتَالِ، فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَسُرَّ الْمُسْلِمُونَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا اور اس سے کچھ فائدہ نہ ہو سکا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اعلان کروا دیا کہ کل ہم لوگ ان شاء اللہ واپس چلیں گے، مسلمانوں کو اس حکم پر اپنی طبیعت میں بوجھ محسوس ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکنے کے لئے فرما دیا، چنانچہ اگلے دن لڑائی ہوئی تو اس میں مسلمانوں کے کئی آدمی زخمی ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن پھر یہی اعلان فرمایا کہ کل ہم لوگ ان شاء اللہ واپس چلیں گے اس مرتبہ مسلمان خوش ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ مسکر انے لگے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن سالم ، عن ابيه ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا كان العبد بين اثنين، فاعتق احدهما نصيبه، فإن كان موسرا، قوم عليه قيمة لا وكس ولا شطط، ثم يعتق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ، فَإِنْ كَانَ مُوسِرًا، قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةً لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ، ثُمَّ يُعْتَقُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دو آدمیوں کے درمیان ایک غلام مشترک ہو اور ان میں سے کوئی ایک اپنے حصے سے اسے آزاد کر دے تو دوسرے کے مالدار ہونے کی صورت میں اس کی قیمت لگوائی جائے گی جو حد سے زیادہ کم یا زیادہ نہ ہو گی (اور دوسرے کو اس کا حصہ دے کر) غلام مکمل آزاد ہو جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن إسماعيل الشيباني : بعت ما في رؤوس نخلي بمئة وسق، إن زاد فلهم، وإن نقص فلهم، فسالت ابن عمر ، فقال:" نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورخص في العرايا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ الشَّيْبَانِيِّ : بِعْتُ مَا فِي رُؤُوسِ نَخْلِي بِمِئَةِ وَسْقٍ، إِنْ زَاد فَلَهُمْ، وَإِنْ نَقَصَ فَلَهُمْ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ:" نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا".
اسماعیل شیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو سو وسق کے بدلے بیچ دیا کہ اگر زیادہ ہوں تب بھی ان کی اور کم ہوں تب بھی ان کی، پھر میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، البتہ اندازے کے ساتھ بیع عرایا کی اجازت دی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان إذا اضاء الفجر، صلى ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا أَضَاءَ الْفَجْرُ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے وقت بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن نافع ، عن ابن عمر : ادرك رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر، وهو في بعض اسفاره، وهو يقول: وابي، وابي! فقال:" إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا، فليحلف بالله، وإلا فليصمت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَر، وَهُوَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: وَأَبِي، وَأَبِي! فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا، فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، وَإِلَّا فَلْيَصْمُتْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص قسم کھانا چاہے تو اللہ کے نام کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، حدثنا إسماعيل بن امية ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" سبق رسول الله صلى الله عليه وسلم الخيل، فارسل ما ضمر منها من الحفياء، وارسل ما لم يضمر منها من ثنية الوداع، إلى مسجد بني زريق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" سَبَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَيْلَ، فَأَرْسَلَ مَا ضُمِّرَ مِنْهَا مِنَ الْحَفْيَاءِ، وَأَرْسَلَ مَا لَمْ يُضَمَّرْ مِنْهَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ، إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا ان میں سے جو گھوڑے چھریرے تھے انہیں ”حفیاء“ سے ثنیۃ الوداع تک مسابقت کے لئے مقرر فرمایا اور جو چھریرے بدن کے نہ تھے ان کی ریس ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک کروائی۔