مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 3548
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، حدثنا مغيرة ، عن إبراهيم ، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد ، قال: رايت ابن مسعود رمى الجمرة جمرة العقبة من بطن الوادي، ثم قال:" هذا والذي لا إله غيره مقام الذي انزلت عليه سورة البقرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَمَى الْجَمْرَةَ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ".
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بطن وادی سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے ہوئے دیکھا ہے، جس کے بعد انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔

حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1747، م: 1296، وهذا إسناد فيه مغيرة الضبي، مدلس وقد عنعن، وروايته عن إبراهيم وحده ضعيفة، وقد توبع
حدیث نمبر: 3549
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا حصين ، عن كثير بن مدرك الاشجعي ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، ان عبد الله لبى حين افاض من جمع، فقيل: اعرابي هذا؟ فقال عبد الله: انسي الناس ام ضلوا؟! سمعت الذي انزلت عليه سورة البقرة، يقول في هذا المكان:" لبيك اللهم لبيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُدْرِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ لَبَّى حِينَ أَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ، فَقِيلَ: أَعْرَابِيٌّ هَذَا؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَسِيَ النَّاسُ أَمْ ضَلُّوا؟! سَمِعْتُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، يَقُولُ فِي هَذَا الْمَكَانِ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ".
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے واپسی پر تلبیہ پڑھتے رہے، لوگ کہنے لگے کہ کیا یہ کوئی دیہاتی ہے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: لوگ بھول گئے یا بہک گئے؟ جس ذات پر سورہ بقرہ کا نزول ہوا میں نے اسی ذات کو اس مقام پر تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1283
حدیث نمبر: 3550
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا حصين ، عن هلال بن يساف ، عن ابي حيان الاشجعي ، عن ابن مسعود رضي الله عنه، قال: قال لي: اقرا علي من القرآن، قال: فقلت له: اليس منك تعلمته، وانت تقرئنا؟ فقال: إني اتيت النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فقال:" اقرا علي من القرآن"، قال: فقلت: يا رسول الله، اليس عليك انزل، ومنك تعلمناه؟، قال:" بلى، ولكني احب ان اسمعه من غيري".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِيَ: اقْرَأْ عَلَيَّ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: أَلَيْسَ مِنْكَ تَعَلَّمْتُهُ، وَأَنْتَ تُقْرِئُنَا؟ فَقَالَ: إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ:" اقْرَأْ عَلَيَّ مِنَ الْقُرْآنِ"، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ عَلَيْكَ أُنْزِلَ، وَمِنْكَ تَعَلَّمْنَاهُ؟، قَالَ:" بَلَى، وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي".
حضرت ابوحیان اشجعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا کہ میں نے تو آپ ہی سے قرآن سیکھا ہے اور آپ ہی ہمیں قرآن پڑھاتے ہیں (تو میں آپ کو کیا سناؤں؟) انہوں نے فرمایا کہ ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے اور آپ ہی سے ہم نے اسے سیکھا ہے؟ فرمایا: ایسا ہی ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے سنوں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 4582، م: 800، وهذا إسناد ضعيف، أبو حيان الأشجعي مجهول
حدیث نمبر: 3551
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا مغيرة ، عن ابي رزين ، عن ابن مسعود ، قال: قرات على رسول الله صلى الله عليه وسلم من سورة النساء، فلما بلغت هذه الآية فكيف إذا جئنا من كل امة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا سورة النساء آية 41، قال: ففاضت عيناه صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا مُغِيرَةُ ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ، فَلَمَّا بَلَغْتُ هَذِهِ الْآيَةَ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، قَالَ: فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نساء میں سے تلاوت شروع کی، جب میں اس آیت پر پہنچا: «﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ [النساء: 41] » وہ کیسا وقت ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ بنائیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4582، م: 800
حدیث نمبر: 3552
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا سيار ومغيرة ، عن ابي وائل ، قال: قال ابن مسعود : خصلتان يعني إحداهما سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، والاخرى من نفسي:" من مات وهو يجعل لله ندا، دخل النار". وانا اقول: من مات، وهو لا يجعل لله ندا، ولا يشرك به شيئا، دخل الجنة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا سَيَّارٌ وَمُغِيرَةُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : خَصْلَتَانِ يَعْنِي إِحْدَاهُمَا سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْأُخْرَى مِنْ نَفْسِي:" مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَجْعَلُ لِلَّهِ نِدًّا، دَخَلَ النَّارَ". وَأَنَا أَقُولُ: مَنْ مَاتَ، وَهُوَ لَا يَجْعَلُ لِلَّهِ نِدًّا، وَلَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں ہیں جن میں سے ایک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور دوسری میں اپنی طرف سے کہتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا، اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3553
Save to word اعراب
(حديث قدسي) حدثنا هشيم ، انبانا علي بن زيد ، قال: سمعت ابا عبيدة بن عبد الله يحدث، قال: قال عبد الله ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن النطفة تكون في الرحم اربعين يوما على حالها لا تغير، فإذا مضت الاربعون، صارت علقة، ثم مضغة كذلك، ثم عظاما كذلك، فإذا اراد الله ان يسوي خلقه، بعث إليها ملكا، فيقول الملك الذي يليه: اي رب، اذكر ام انثى؟ اشقي ام سعيد؟ اقصير ام طويل؟ اناقص ام زائد؟ قوته واجله؟ اصحيح ام سقيم؟ قال: فيكتب ذلك كله"، فقال رجل من القوم: ففيم العمل إذن وقد فرغ من هذا كله؟، قال:" اعملوا فكل سيوجه لما خلق له".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ النُّطْفَةَ تَكُونُ فِي الرَّحِمِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا عَلَى حَالِهَا لَا تَغَيَّرُ، فَإِذَا مَضَتْ الْأَرْبَعُونَ، صَارَتْ عَلَقَةً، ثُمَّ مُضْغَةً كَذَلِكَ، ثُمَّ عِظَامًا كَذَلِكَ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُسَوِّيَ خَلْقَهُ، بَعَثَ إِلَيْهَا مَلَكًا، فَيَقُولُ الْمَلَكُ الَّذِي يَلِيهِ: أَيْ رَبِّ، أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى؟ أَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ؟ أَقَصِيرٌ أَمْ طَوِيلٌ؟ أَنَاقِصٌ أَمْ زَائِدٌ؟ قُوتُهُ وَأَجَلُهُ؟ أَصَحِيحٌ أَمْ سَقِيمٌ؟ قَالَ: فَيَكْتُبُ ذَلِكَ كُلَّهُ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: فَفِيمَ الْعَمَلُ إِذَنْ وَقَدْ فُرِغَ مِنْ هَذَا كُلِّهِ؟، قَالَ:" اعْمَلُوا فَكُلٌّ سَيُوَجَّهُ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ماں کے رحم میں چالیس دن تک تو نطفہ اپنی حالت پر رہتا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، جب چالیس دن گزر جاتے ہیں تو وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے، چالیس دن بعد وہ لوتھڑا بن جاتا ہے، اسی طرح چالیس دن بعد اس پر ہڈیاں چڑھائی جاتی ہیں، پھر جب اللہ کا ارادہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی شکل و صورت برابر کر دے تو اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے، چنانچہ اس خدمت پر مقرر فرشتہ اللہ سے پوچھتا ہے کہ پروردگار! یہ مذکر ہوگا یا مؤ نث؟ بدبخت ہوگا یا خوش بخت؟ ٹھنگنا ہوگا یا لمبےقد کا؟ ناقص الخلقت ہوگا یا زائد؟ اس کی روزی کیا ہوگی اور اس کی مدت عمر کتنی ہوگی؟ اور یہ تندرست ہوگا یا بیمار؟ یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں۔ یہ سن کر لوگوں میں سے کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب یہ ساری چیزیں لکھی جا چکی ہیں تو پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا: تم عمل کرتے رہو، کیونکہ ہر شخص کو اسی کام کی طرف متوجہ کیا جائے گا جس کے لئے اس کی پیدائش ہوئی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ومنقطع ، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه ابن مسعود، وعلي بن زيد ضعيف
حدیث نمبر: 3554
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا العوام ، عن محمد بن ابي محمد مولى لعمر بن الخطاب، عن ابي عبيدة بن عبد الله ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من مسلمين يموت لهما ثلاثة من الولد، لم يبلغوا الحنث، إلا كانوا له حصنا حصينا من النار"، فقيل: يا رسول الله، فإن كان اثنين؟ قال:" وإن كانا اثنين"، فقال ابو ذر: يا رسول الله، لم اقدم إلا اثنين؟ قال:" وإن كانا اثنين"، قال: فقال ابي بن كعب ابو المنذر سيد القراء: لم اقدم إلا واحدا، قال: فقيل له: وإن كان واحدا؟، فقال:" إنما ذاك عند الصدمة الاولى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا الْعَوَّامُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلًى لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَمُوتُ لَهُمَا ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ، لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا كَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنَ النَّارِ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنْ كَانَ اثْنَيْنِ؟ قَالَ:" وَإِنْ كَانَا اثْنَيْنِ"، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أُقَدِّمْ إِلَّا اثْنَيْنِ؟ قَالَ:" وَإِنْ كَانَا اثْنَيْنِ"، قَالَ: فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ أَبُو الْمُنْذِرِ سَيِّدُ الْقُرَّاءِ: لَمْ أُقَدِّمْ إِلَّا وَاحِدًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا؟، فَقَالَ:" إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جن مسلمان میاں بیوی کے تین بچے بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو جائیں، وہ ان کے لئے جہنم سے حفاظت کا ایک مضطوط قلعہ بن جائیں گے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر کسی کے دو بچے فوت ہوئے ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی یہی حکم ہے، (سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! میں نے تو دو بچے آگے بھیجے ہیں؟ فرمایا: پھر بھی یہی حکم ہے) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ - جو سید القراء کے نام سے مشہور ہیں - عرض کرنے لگے کہ میرا صرف ایک بچہ فوت ہوا ہے؟ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کسی کا ایک بچہ فوت ہوا ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس چیز کا تعلق تو صدمہ کے ابتدائی لمحات سے ہے (کہ اس وقت کون صبر کرتا ہے اور کون جزع فزع؟ کیونکہ بعد میں تو سب ہی صبر کر لیتے ہیں)۔

حكم دارالسلام: في إسناده بهذه السياقة ضعف وانقطاع، محمد بن أبى محمد مجهول، وأبو عبيدة لم يسمع من أبيه
حدیث نمبر: 3555
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا ابو الزبير ، عن نافع بن جبير ، عن ابي عبيدة بن عبد الله ، عن ابيه ، ان المشركين شغلوا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الخندق عن اربع صلوات، حتى ذهب من الليل ما شاء الله، قال: قال:" فامر بلالا فاذن، ثم اقام فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر، ثم اقام فصلى المغرب، ثم اقام فصلى العشاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ، حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قَالَ:" فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازوں کے ان کے وقت کے پر ادا کرنے سے مشغول کر دیا، یہاں تک کہ رات کا بھی کچھ حصہ گزر گیا، فراغت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، اقامت کہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہہ کر عصر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کے بعد مغرب کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہلوا کر عشا کی نماز پڑھائی۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه
حدیث نمبر: 3556
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا العوام ، عن جبلة بن سحيم ، عن مؤثر بن عفازة ، عن ابن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لقيت ليلة اسري بي إبراهيم، وموسى، وعيسى"، قال:" فتذاكروا امر الساعة، فردوا امرهم إلى إبراهيم، فقال: لا علم لي بها، فردوا الامر إلى موسى، فقال: لا علم لي بها، فردوا الامر إلى عيسى، فقال: اما وجبتها، فلا يعلمها احد إلا الله، ذلك وفيما عهد إلي ربي عز وجل ان الدجال خارج، قال: ومعي قضيبان، فإذا رآني، ذاب كما يذوب الرصاص، قال: فيهلكه الله، حتى إن الحجر والشجر ليقول: يا مسلم، إن تحتي كافرا، فتعال فاقتله، قال: فيهلكهم الله، ثم يرجع الناس إلى بلادهم واوطانهم، قال: فعند ذلك يخرج ياجوج وماجوج، وهم من كل حدب ينسلون، فيطئون بلادهم، لا ياتون على شيء إلا اهلكوه، ولا يمرون على ماء إلا شربوه، ثم يرجع الناس إلي فيشكونهم، فادعو الله عليهم، فيهلكهم الله ويميتهم، حتى تجوى الارض من نتن ريحهم، قال: فينزل الله عز وجل المطر، فتجرف اجسادهم حتى يقذفهم في البحر"، قال ابي: ذهب علي هاهنا شيء لم افهمه، كاديم، وقال يزيد يعني ابن هارون:" ثم تنسف الجبال، وتمد الارض مد الاديم"، ثم رجع إلى حديث هشيم، قال:" ففيما عهد إلي ربي عز وجل ان ذلك إذا كان كذلك، فإن الساعة كالحامل المتم، التي لا يدري اهلها متى تفجؤهم بولادها ليلا او نهارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا الْعَوَّامُ ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ ، عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَةَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَقِيتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي إِبْرَاهِيمَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى"، قَالَ:" فَتَذَاكَرُوا أَمْرَ السَّاعَةِ، فَرَدُّوا أَمْرَهُمْ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي بِهَا، فَرَدُّوا الْأَمْرَ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي بِهَا، فَرَدُّوا الْأَمْرَ إِلَى عِيسَى، فَقَالَ: أَمَّا وَجْبَتُهَا، فَلَا يَعْلَمُهَا أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ، ذَلِكَ وَفِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ الدَّجَّالَ خَارِجٌ، قَالَ: وَمَعِي قَضِيبَانِ، فَإِذَا رَآنِي، ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الرَّصَاصُ، قَالَ: فَيُهْلِكُهُ اللَّهُ، حَتَّى إِنَّ الْحَجَرَ وَالشَّجَرَ لَيَقُولُ: يَا مُسْلِمُ، إِنَّ تَحْتِي كَافِرًا، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، قَالَ: فَيُهْلِكُهُمْ اللَّهُ، ثُمَّ يَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلَادِهِمْ وَأَوْطَانِهِمْ، قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ يَخْرُجُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَطَئُونَ بِلَادَهُمْ، لَا يَأْتُونَ عَلَى شَيْءٍ إِلَّا أَهْلَكُوهُ، وَلَا يَمُرُّونَ عَلَى مَاءٍ إِلَّا شَرِبُوهُ، ثُمَّ يَرْجِعُ النَّاسُ إِلَيَّ فَيَشْكُونَهُمْ، فَأَدْعُو اللَّهَ عَلَيْهِمْ، فَيُهْلِكُهُمْ اللَّهُ وَيُمِيتُهُمْ، حَتَّى تَجْوَى الْأَرْضُ مِنْ نَتْنِ رِيحِهِمْ، قَالَ: فَيُنْزِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَطَرَ، فَتَجْرُفُ أَجْسَادَهُمْ حَتَّى يَقْذِفَهُمْ فِي الْبَحْرِ"، قَالَ أَبِي: ذَهَبَ عَلَيَّ هَاهُنَا شَيْءٌ لَمْ أَفْهَمْهُ، كَأَدِيمٍ، وَقَالَ يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ:" ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ، وَتُمَدُّ الْأَرْضُ مَدَّ الْأَدِيمِ"، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ هُشَيْمٍ، قَالَ:" فَفِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ ذَلِكَ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ، فَإِنَّ السَّاعَةَ كَالْحَامِلِ الْمُتِمِّ، الَّتِي لَا يَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادِهَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب معراج میری ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، انہوں نے قیامت کا تذکرہ چھیڑ دیا اور یہ معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ مجھے تو اس کا کچھ علم نہیں ہے، پھر انہوں نے یہ معاملہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے پیش کیا، انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں ہے، پھر یہ معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا حقیقی علم تو اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، البتہ میرے پروردگار نے مجھے یہ بتا رکھا ہے کہ قیامت کے قریب دجال کا خروج ہوگا، میرے پاس دو شاخیں ہوں گی، دجال مجھے دیکھتے ہی اس طرح پگھلنا شروع ہو جائے گا جیسے قلعی پگھل جاتی ہے، اس کے بعد اللہ اسے ختم کروا دے گا، یہاں تک کہ شجر و حجر پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مسلم! یہ میرے نیچے کافر چھپا ہوا ہے، آ کر اسے قتل کر، یوں اللہ ان سب کو بھی ختم کروا دے گا۔ پھر لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کو لوٹ جائیں گے، اس وقت یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا جو ہر بلندی سے پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے، وہ تمام شہروں کو روند ڈالیں گے، میں اللہ سے ان کے خلاف بد دعا کروں گا، تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کو مسلط کر دے گا یہاں تک کہ ساری زمین ان کی بدبو سے بھر جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ بارش برسائیں گے جو ان کے جسموں کو بہا کر لے جائے گی اور سمندر میں پھینک دے گی، (میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ یہاں کچھ رہ گیا ہے جو میں سمجھ نہیں سکا، بہرحال دوسرے راوی کہتے ہیں) اس کے بعد پہاڑوں کو گرا دیا جائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ دیا جائے گا، میرے رب نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ جب یہ واقعات پیش آ جائیں تو قیامت کی مثال اس امید والی اونٹنی کی ہوگی جس کی مدت حمل پوری ہو چکی ہو اور اس کے مالک کو معلوم نہ ہو کہ کب اچانک ہی اس کے یہاں دن یا رات میں بچہ پیدا ہو جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مؤثر بن غفارة، لم يوثقه غير ابن حبان والعجلي
حدیث نمبر: 3557
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد ، حدثنا منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن فلانا نام البارحة عن الصلاة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذلك الشيطان بال في اذنه" او" في اذنيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا نَامَ الْبَارِحَةَ عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَلِكَ الشَّيْطَانُ بَالَ فِي أُذُنِهِ" أَوْ" فِي أُذُنَيْهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز سے غافل ہو کر سوتا رہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1144، م: 774

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.