سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کا حج کا ارادہ ہو، اسے یہ ارادہ جلد پورا کر لینا چاہیے، کیونکہ بعض اوقات سواری گم ہو جاتی ہے، کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی ضرورت آڑے آ جاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، أبو إسرائيل سيء الحفظ لكنه توبع.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کا حج کا ارادہ ہو، اسے یہ ارادہ جلد پورا کر لینا چاہیے، کیونکہ بعض اوقات سواری گم ہو جاتی ہے، کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی ضرورت آڑے آ جاتی ہے۔“
سیدنا تمام بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا بات ہے، مجھے تمہارے دانت پیلے زرد دکھائی دے رہے ہیں؟ مسواک کیا کرو، اگر مجھے اپنی امت پر دشواری کا احساس نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک کو اسی طرح فرض قرار دے دیتا جیسے وضو کو فرض قرار دیا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابو على الزراد الصيقل مجهول وتمام بن عباس حديثه عن النبى صلى الله عليه وسلم مرسل
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصف عبد الله , وعبيد الله وكثيرا من بني العباس، ثم يقول" من سبق إلي، فله كذا وكذا"، قال: فيستبقون إليه، فيقعون على ظهره وصدره، فيقبلهم ويلزمهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُفُّ عَبْدَ اللَّهِ , وَعُبَيْدَ اللَّهِ وَكَثِيرًا مِن بَنِي الْعَبَّاسِ، ثُمَّ يَقُولُ" مَنْ سَبَقَ إِلَيَّ، فَلَهُ كَذَا وَكَذَا"، قَالَ: فَيَسْتَبِقُونَ إِلَيْهِ، فَيَقَعُونَ عَلَى ظَهْرِهِ وَصَدْرِهِ، فَيُقَبِّلُهُمْ وَيَلْزَمُهُمْ.
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ، عبیداللہ اور کثیر - جو کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان تھے - کو ایک صف میں کھڑا کرتے اور فرماتے کہ ”جو میرے پاس پہلے آئے گا، اسے یہ یہ ملے گا۔“ چنانچہ یہ سب دوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، کوئی پشت پر گرتا اور کوئی سینہ مبارک پر آ کر گرتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار کرتے اور اپنے جسم کے ساتھ لگاتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن أبى زياد ضعيف ورواية عبدالله بن الحارث عن النبى صلى الله عليه وسلم مرسلة .
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا يحيى بن ابي إسحاق ، عن سليمان بن يسار ، عن عبيد الله بن العباس ، قال: جاءت الغميصاء او الرميصاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشكو زوجها، وتزعم انه لا يصل إليها، فما كان إلا يسيرا حتى جاء زوجها، فزعم انها كاذبة، ولكنها تريد ان ترجع إلى زوجها الاول، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس لك ذلك، حتى يذوق عسيلتك رجل غيره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: جَاءَتْ الْغُمَيْصَاءُ أَوْ الرُّمَيْصَاءُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْكُو زَوْجَهَا، وَتَزْعُمُ أَنَّهُ لَا يَصِلُ إِلَيْهَا، فَمَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جَاءَ زَوْجُهَا، فَزَعَمَ أَنَّهَا كَاذِبَةٌ، وَلَكِنَّهَا تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ لَكِ ذَلِكَ، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ رَجُلٌ غَيْرُهُ".
سیدنا عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت - جس کا نام غمیصاء یا رمیصاء تھا - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی، اس کا کہنا یہ تھا کہ اس کا خاوند اس کے قریب پہنچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، تھوڑی دیر بعد اس کا شوہر بھی آ گیا، اس کا خیال یہ تھا کہ اس کی بیوی جھوٹ بول رہی ہے، اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے خاوند سے دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تمہارے لئے ایسا کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک تمہارا شہد اس (پہلے شوہر) کے علاوہ کوئی دوسرا مرد نہ چکھ لے۔“
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وقد اختلف فى هذا الإسناد على سليمان بن يسار .
(حديث مرفوع) انبانا ابو علي الحسن بن علي بن محمد بن المذهب الواعظ، قال: انبانا ابو بكر احمد بن جعفر بن حمدان بن مالك قراءة عليه، حدثنا ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد بن محمد بن حنبل , حدثني ابي من كتابه.(حديث مرفوع) أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُذْهِبِ الْوَاعِظُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حِمْدَانَ بْنِ مَالِكٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن حَنْبَلٍ , حَدَّثَنِي أَبِي مِنْ كِتَابِهِ.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا اجلح ، عن يزيد بن الاصم ، عن ابن عباس ، ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما شاء الله وشئت، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اجعلتني والله عدلا؟ بل ما شاء الله وحده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا أَجْلَحُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجَعَلْتَنِي وَاللَّهَ عَدْلًا؟ بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو مجھے اور اللہ کو برابر کر رہا ہے؟ یوں کہو: جو اللہ تنہا چاہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الأجلح مختلف فيه.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، حدثنا يزيد بن ابي زياد ، عن عكرمة ، عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت وهو على بعيره، واستلم الحجر بمحجن كان معه، قال: واتى السقاية، فقال:" اسقوني"، فقالوا: إن هذا يخوضه الناس، ولكنا ناتيك به من البيت، فقال:" لا حاجة لي فيه، اسقوني مما يشرب منه الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ وَهُوَ عَلَى بَعِيرِهِ، وَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ بِمِحْجَنٍ كَانَ مَعَهُ، قَالَ: وَأَتَى السِّقَايَةَ، فَقَالَ:" اسْقُونِي"، فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا يَخُوضُهُ النَّاسُ، وَلَكِنَّا نَأْتِيكَ بِهِ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَالَ:" لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، اسْقُونِي مِمَّا يَشْرَبُ مِنْهُ النَّاسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف فرمایا اور حجر اسود کا استلام اس چھڑی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنوئیں پر تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے پانی پلاؤ“، لوگوں نے کہا کہ اس کنوئیں میں تو لوگ گھستے ہیں، ہم آپ کے لئے بیت اللہ سے پانی لے کر آتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی کوئی ضرورت نہیں، مجھے اسی جگہ سے پانی پلاؤ جہاں سے عام لوگ پیتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1607، 1635، م: 1272. وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد .