سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح بواسطة عامر الأحول، خ: 1543، م: 1281. وفي هذا الإسناد جابر الجعفي وابن عطاء ضعيفان ولكنهما توبعا.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتھ کنکریاں ماری تھیں اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے جا رہے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، ومحمد ابنا عبيد، قالا: حدثنا عبد الملك ، عن عطاء ، عن عبد الله بن عباس ، عن الفضل ، قال: افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات، واسامة بن زيد ردفه، فجالت به الناقة وهو واقف بعرفات قبل ان يفيض، وهو رافع يديه، لا تجاوزان راسه، فلما افاض، سار على هينته حتى اتى جمعا، ثم افاض من جمع والفضل ردفه، قال الفضل:" ما زال النبي صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى الجمرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، وَمُحَمَّدٌ ابْنًا عُبَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ ، قَالَ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَاتٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رِدْفُهُ، فَجَالَتْ بِهِ النَّاقَةُ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ، وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، لَا تُجَاوِزَانِ رَأْسَهُ، فَلَمَّا أَفَاضَ، سَارَ عَلَى هِينَتِهِ حَتَّى أَتَى جَمْعًا، ثُمَّ أَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَالْفَضْلُ رِدْفُهُ، قَالَ الْفَضْلُ:" مَا زَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ".
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے، اونٹنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھومتی رہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانگی سے قبل عرفات میں اپنے ہاتھوں کو بلند کئے کھڑے ہوئے تھے لیکن ہاتھوں کی بلندی سر سے تجاوز نہیں کرتی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے تو اطمینان اور وقار سے چلتے ہوئے مزدلفہ پہنچے، اور جب مزدلفہ سے روانہ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سوار تھے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا ابن جريج ، حدثني محمد بن عمر بن علي ، عن الفضل بن عباس ، قال: زار النبي صلى الله عليه وسلم عباسا ونحن في بادية لنا،" فقام يصلي، قال: اراه قال: العصر، وبين يديه كليبة لنا وحمار يرعى، ليس بينه وبينهما شيء يحول بينه وبينهما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: زَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبَّاسًا وَنَحْنُ فِي بَادِيَةٍ لَنَا،" فَقَامَ يُصَلِّي، قَالَ: أُرَاهُ قَالَ: الْعَصْرَ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ كُلَيْبَةٌ لَنَا وَحِمَارٌ يَرْعَى، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمَا شَيْءٌ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمَا.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے کسی دیہات میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی، اس وقت ہمارے پاس ایک مؤنث کتا اور ایک مؤنث گدھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی رہے اور ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف فهو معضل، محمد بن عمر بن على لم يدرك الفضل.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! حج کے معاملے میں میرے والد پر اللہ کا فریضہ عائد ہو چکا ہے، لیکن وہ اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم حج کر لو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني عمرو ابن دينار ، ان ابن عباس ، كان يخبر، ان الفضل بن عباس اخبره , انه دخل مع النبي صلى الله عليه وسلم البيت، وان النبي صلى الله عليه وسلم" لم يصل في البيت حين دخله، ولكنه لما خرج فنزل ركع ركعتين عند باب البيت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو ابْنُ دِينَارٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، كَانَ يُخْبِرُ، أَنَّ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يُصَلِّ فِي الْبَيْتِ حِينَ دَخَلَهُ، وَلَكِنَّهُ لَمَّا خَرَجَ فَنَزَلَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ بَابِ الْبَيْتِ".
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے لیکن نماز نہیں پڑھی، البتہ باہر نکل کر باب کعبہ کے سامنے دو رکعتیں پڑھی تھیں۔
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے، اور جب مزدلفہ سے روانہ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سوار تھے یہاں تک کہ منیٰ پہنچے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج , وابن بكر ،، قالا حدثنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه اخبره ابو معبد مولى ابن عباس، عن عبد الله بن عباس عن الفضل بن عباس ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال في عشية عرفة وغداة جمع للناس حين دفعوا:" عليكم السكينة"، وهو كاف ناقته، حتى إذا دخل منى حين هبط محسرا، قال:" عليكم بحصى الخذف الذي يرمى به الجمرة"، والنبي صلى الله عليه وسلم يشير بيده كما يخذف الإنسان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , وابن بكر ،، قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ أخبره أَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبّاسٍ ، عَنْ رَسُولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي عَشِيَّةِ عَرَفَةَ وَغَدَاةِ جَمْعٍ لِلنَّاسِ حِينَ دَفَعُوا:" عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ"، وَهُوَ كَافٌّ نَاقَتَهُ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ مِنًى حِينَ هَبَطَ مُحَسِّرًا، قَالَ:" عَلَيْكُمْ بِحَصَى الْخَذْفِ الَّذِي يُرْمَى بِهِ الْجَمْرَةُ"، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ كَمَا يَخْذِفُ الْإِنْسَانُ.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عرفہ کی رات گذارنے کے بعد جب صبح کے وقت ہم نے وادی مزدلفہ کو چھوڑا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”اطمینان اور سکون اختیار کرو۔“ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو تیز چلنے سے روک رہے تھے، یہاں تک کہ وادی محسر سے اتر کر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم منی میں داخل ہوئے تو فرمایا: ”ٹھیکری کی کنکریاں لے لو تاکہ رمی جمرات کی جا سکے،“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرنے لگے جس طرح انسان کنکری پھینکتے وقت کرتا ہے۔
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! حج کے معاملے میں میرے والد پر اللہ کا فریضہ عائد ہو چکا ہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم حج کر لو۔“