(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا يزيد بن ابي زياد ، عن مجاهد ، عن ابن عباس ، انه قال:" اهل النبي صلى الله عليه وسلم بالحج، فلما قدم طاف بالبيت، وبين الصفا , والمروة، ولم يقصر , ولم يحل من اجل الهدي، وامر من لم يكن ساق الهدي ان يطوف، وان يسعى ويقصر، او يحلق، ثم يحل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنِ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ:" أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمَ طَافَ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا , وَالْمَرْوَةِ، وَلَمْ يُقَصِّرْ , وَلَمْ يُحِلَّ مِنْ أَجْلِ الْهَدْيِ، وَأَمَرَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَطُوفَ، وَأَنْ يَسْعَى وَيُقَصِّرَ، أَوْ يَحْلِقَ، ثُمَّ يُحِلَّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی نیت سے احرام باندھا، مکہ مکرمہ پہنچ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، لیکن ہدی کی وجہ سے بال کٹوا کر حلال نہیں ہوئے، اور ہدی اپنے ساتھ نہ لانے والوں کو حکم دیا کہ وہ ”طواف اور سعی کر کے قصر یا حلق کرنے کے بعد حلال ہو جائیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1239، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانہ کا یا ہڈی والا گوشت تناول فرمایا، پھر تازہ وضو کئے بغیر سابقہ وضو سے ہی نماز پڑھ لی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا ابن ابي ليلى ، عن داود بن علي ، عن ابيه ، عن جده ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صوموا يوم عاشوراء، وخالفوا فيه اليهود، صوموا قبله يوما، او بعده يوما".(حديث مرفوع) حدثنا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عاشورہ کا روزہ رکھا کرو، لیکن اس میں بھی یہودیوں کی مخالفت کیا کرو اور وہ اس طرح کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی ملا لیا کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف ، ابن أبى ليلى، سيء الحفظ ، داود بن على ، يخطئ .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، عن الشعبي ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان إذا احتجم , احتجم في الاخدعين" , قال: فدعا غلاما لبني بياضة فحجمه، واعطى الحجام اجره مدا ونصفا، قال: وكلم مواليه، فحطوا عنه نصف مد، وكان عليه مدان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا احْتَجَمَ , احْتَجَمَ فِي الْأَخْدَعَيْنِ" , قَالَ: فَدَعَا غُلَامًا لِبَنِي بَيَاضَةَ فَحَجَمَهُ، وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ مُدًّا وَنِصْفًا، قَالَ: وَكَلَّمَ مَوَالِيَهُ، فَحَطُّوا عَنْهُ نِصْفَ مُدٍّ، وَكَانَ عَلَيْهِ مُدَّانِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سینگی لگواتے تو گردن کی دونوں جانب پہلوؤں کی رگوں میں لگواتے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو بیاضہ کے ایک غلام کو بلایا، اس نے سینگی لگائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈیڑھ مد گندم بطور اجرت کے عطاء فرمائی، اور اس کے آقاؤں سے اس سلسلے میں بات کی چنانچہ انہوں نے اس سے نصف مد کم کر دیا، ورنہ پہلے اس پر پورے دو مد تھے۔
حكم دارالسلام: قوله: «أحتجم فى الأخدعين» حسن لغيره، وبقيته صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر.
سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں دو رکعت پڑھنے کا طریقہ متعین فرما دیا ہے اس لئے یہ دو رکعتیں ہی مکمل ہیں، نامکمل نہیں، اور سفر میں وتر پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اللہ کے لئے تعمیر مسجد میں حصہ لیتا ہے - خواہ وہ قطا پرندے کے انڈے دینے کے گھونسلے کے برابر ہی کیوں نہ ہو - اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر فرما دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي.
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج , قالا: حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا جمرة الضبعي ، قال:" تمتعت فنهاني ناس عن ذلك، فاتيت ابن عباس , فسالته عن ذلك، فامرني بها، قال: ثم انطلقت إلى البيت فنمت، فاتاني آت في منامي، فقال: عمرة متقبلة وحج مبرور، قال: فاتيت ابن عباس، فاخبرته بالذي رايت، فقال: الله اكبر، الله اكبر، سنة ابي القاسم صلى الله عليه وسلم , وقال: في الهدي جزور، او بقرة، او شاة، او شرك في دم" , قال عبد الله: ما اسند شعبة , عن ابي جمرة إلا واحدا، وابو جمرة اوثق من ابي حمزة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ ، قَالَ:" تَمَتَّعْتُ فَنَهَانِي نَاسٌ عَنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَنِي بِهَا، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَنِمْتُ، فَأَتَانِي آتٍ فِي مَنَامِي، فَقَالَ: عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ وَحَجٌّ مَبْرُورٌ، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ: فِي الْهَدْيِ جَزُورٌ، أَوْ بَقَرَةٌ، أَوْ شَاةٌ، أَوْ شِرْكٌ فِي دَمٍ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: مَا أَسْنَدَ شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي جَمْرَةَ إِلَّا وَاحِدًا، وَأَبُو جَمْرَةَ أَوْثَقُ مِنْ أَبِي حَمْزَةَ.
ابوجمرہ الضبعی کہتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کی نیت سے احرام باندھا، لوگوں نے مجھے منع کیا، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آ کر یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے مجھے فرمایا کہ تم یہ کر لو، پھر میں بیت اللہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچ کر مجھے نیند آ گئی، خواب میں میرے پاس ایک شخص آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تیرا عمرہ بھی مقبول ہے اور تیرا حج بھی مبرور ہے، میں جب خواب سے بیدار ہوا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اپنا خواب سنایا، اس پر انہوں نے دو مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا کہ یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور فرمایا کہ ہدی میں اونٹ، گائے، بکری یا سات حصوں والے جانور میں شرکت بھی ہو سکتی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے ان سے سفر میں نماز کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلنے کے بعد گھر واپس آنے تک دو رکعت نماز (قصر) ہی پڑھتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کا دودھ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے جو گندگی کھاتی ہو، اور اس جانور سے جسے باندھ کر اس پر نشانہ درست کیا جائے، اور مشکیزہ کے منہ سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔