(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا شريك ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قدمت عير المدينة، فاشترى النبي صلى الله عليه وسلم منها فربح اواقي، فقسمها في ارامل بني عبد المطلب، وقال:" لا اشتري شيئا ليس عندي ثمنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمَتْ عِيرٌ الْمَدِينَةَ، فَاشْتَرَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا فَرَبِحَ أَوَاقِيَّ، فَقَسَمَهَا فِي أَرَامِلِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَقَالَ:" لَا أَشْتَرِي شَيْئًا لَيْسَ عِنْدِي ثَمَنُهُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں کچھ اونٹ آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کوئی اونٹ خرید لیا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چند اوقیہ چاندی کا منافع ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ منافع بنو عبدالمطلب کی بیوہ عورتوں پر تقسیم فرما دیا اور فرمایا کہ ”میں ایسی چیز نہیں خریدتا جس کی قیمت میرے پاس نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شريك سيئ الحفظ وسماك فى روايته عن عكرمة مضطرب.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ بنو عبدالمطلب کی دو بچیاں آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے چمٹ گئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہٹا دیا (اور برابر نماز پڑھتے رہے)۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: «فرع بينهما» ، فحسن من أجل صهيب.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وابن جعفر , قالا: حدثنا شعبة ، عن المغيرة بن النعمان ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بموعظة، فقال:" إنكم محشورون إلى الله تعالى حفاة، عراة، غرلا كما بدانا اول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين سورة الانبياء آية 104 فاول الخلائق يكسى إبراهيم خليل الرحمن عز وجل، قال: ثم يؤخذ بقوم منكم ذات الشمال"، قال ابن جعفر: وإنه سيجاء برجال من امتي، فيؤخذ بهم ذات الشمال، فاقول:" يا رب , اصحابي، قال: فيقال لي: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك، لم يزالوا مرتدين على اعقابهم مذ فارقتهم، فاقول كما قال العبد الصالح: وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم الآية إلى إنك انت العزيز الحكيم سورة المائدة آية 117 - 118".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَال: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْعِظَةٍ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى حُفَاةً، عُرَاةً، غُرْلًا كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 فَأَوَّلُ الْخَلَائِقِ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: ثُمَّ يُؤْخَذُ بِقَوْمٍ مِنْكُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ"، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَإِنَّهُ سَيُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ:" يَا رَبِّ , أَصْحَابِي، قَالَ: فَيُقَالُ لِي: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُذْ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ الْآيَةَ إِلَى إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 117 - 118".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان وعظ و نصیحت کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ ”قیامت کے دن تم سب اللہ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون ہونے کی حالت میں پیش کئے جاؤ گے، ارشاد ربانی ہے: «﴿كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ﴾ [الأنبياء: 104] »”ہم نے تمہیں جس طرح پہلے پیدا کیا تھا، دوبارہ بھی اسی طرح پیدا کریں گے، یہ ہمارے ذے وعدہ ہے اور ہم یہ کر کے رہیں گے“، پھر مخلوق میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا جو کہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پھر تم میں سے ایک قوم کو بائیں جانب سے پکڑ لیا جائے گا، میں عرض کروں گا کہ پروردگار! یہ میرے ساتھی ہیں، مجھ سے کہا جائے گا کہ ”آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعات ایجاد کر لی تھیں، یہ آپ کے وصال اور اور ان سے آپ کی جدائی کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور اسی پر مستقل طور پر قائم رہے“، یہ سن کر میں وہی کہوں گا جو عبد صالح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا: «﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ . . . . . فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ [المائدة: 117-118] »”میں جب تک ان کے درمیان رہا، اس وقت تک ان کے احوال کی نگہبانی کرتا رہا . . . . . بیشک آپ بڑے غالب حکمت والے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن منصور ، عن ذر بن عبد الله الهمداني ، عن عبد الله بن شداد ، عن ابن عباس ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله , إني احدث نفسي بالشيء لان اخر من السماء احب إلي من ان اتكلم به , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الحمد لله الذي رد كيده إلى الوسوسة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ذَرِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أُحَدِّثُ نَفْسِي بِالشَّيْءِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ كَيَدَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بعض اوقات ایسے خیالات آتے ہیں کہ میں انہیں زبان پر لانے سے بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ آسمان سے گر پڑوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تین مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہا اور فرمایا: ”اس اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اپنی تدبیر کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اختلفتم في الطريق، فاجعلوه سبع اذرع، ومن بنى بناء، فليدعمه حائط جاره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اخْتَلَفْتُمْ فِي الطَّرِيقِ، فَاجْعَلُوهُ سَبْعَ أَذْرُعٍ، وَمَنْ بَنَى بِنَاءً، فَلْيَدْعَمْهُ حَائِطَ جَارِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب راستے (کی پیمائش) میں تمہارا اختلاف رائے ہو جائے تو اسے سات گز بنا لیا کرو، اور جو شخص کوئی عمارت بنائے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی لکڑی کے ساتھ ستون بنا لے (تاکہ اس کی عمارت نہ گر سکے)۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة مضطربة.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن المسعودي ، عن الحكم ، عن مقسم ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما افاض من عرفة، تسارع قوم، فقال: او فنودوا:" ليس البر بإيضاع الخيل ولا الركاب" , قال: فما رايت رافعة يدها تعدو، حتى اتينا جمعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ، تَسَارَعَ قَوْمٌ، فَقَالَ: أو فنودوا:" لَيْسَ الْبِرُّ بِإِيضَاعِ الْخَيْلِ وَلَا الرِّكَابِ" , قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ رَافِعَةً يَدَهَا تَعْدُو، حَتَّى أَتَيْنَا جَمْعًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے میدان سے واپس روانہ ہوئے تو لوگوں کا ایک گروہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سکون سے چلو، گھوڑے اور سواریاں تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے“، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پھر میں نے اپنے ہاتھ بڑھانے والی کسی سواری کو تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ ہم مزدلفہ پہنچ گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن سماك بن حرب ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان امراة من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اغتسلت من جنابة،" فاغتسل النبي صلى الله عليه وسلم , او توضا من فضلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْتَسَلَتْ مِنْ جَنَابَةٍ،" فَاغْتَسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَوْ تَوَضَّأَ مِنْ فَضْلِهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے غسل جنابت فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بچے ہوئے پانی سے غسل یا وضو فرما لیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، سماك مضطرب فى روايته عن عكرمة.