(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن شعبة مولى ابن عباس، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" إذا سجد يرى بياض إبطيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ شُعْبَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا سَجَدَ يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی (یعنی ہاتھ اتنے جدا ہوتے تھے)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، شعبة مولى ابن عباس سيء الحفظ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ عمامہ - جو تیل سے چکنا ہوگیا تھا - باندھ رکھا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال: وددت ان الناس غضوا من الثلث إلى الربع في الوصية، لان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الثلث كثير او كبير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إِلَى الرُّبُعِ فِي الْوَصِيَّةِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کاش! لوگ وصیت کرنے میں تہائی سے کمی کر کے چوتھائی کو اختیار کر لیں، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ قرار دیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا فطر ، عن عامر بن واثلة ، قال: قلت لابن عباس : إن قومك يزعمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رمل وانها سنة، قال: صدق قومي وكذبوا،" قد رمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وليست بسنة، ولكنه قدم والمشركون على جبل قعيقعان، فتحدثوا ان به وباصحابه هزلا وجهدا وشدة، فامر بهم فرملوا بالبيت ليريهم انهم لم يصبهم جهد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَمَلَ وَأَنَّهَا سُنَّةٌ، قَالَ: صَدَقَ قَوْمِي وَكَذَبُوا،" قَدْ رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَتْ بِسُنَّةٍ، وَلَكِنَّهُ قَدِمَ وَالْمُشْرِكُونَ عَلَى جَبَلِ قُعَيْقِعَانَ، فَتَحَدَّثُوا أَنَّ بِهِ وَبِأَصْحَابِهِ هَزْلًا وَجَهْدًا وَشِدَّةً، فَأَمَرَ بِهِمْ فَرَمَلُوا بِالْبَيْتِ لِيُرِيَهُمْ أَنَّهُمْ لَمْ يُصِبْهُمْ جَهْدٌ".
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے طواف کے دوران رمل کیا ہے اور یہ سنت ہے، فرمایا: اس میں آدھا سچ ہے اور آدھا جھوٹ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل تو فرمایا ہے لیکن یہ سنت نہیں ہے اور رمل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف لائے تو مشرکین جبل قعیقعان نامی پہاڑ پر سے انہیں دیکھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ یہ لوگ آپس میں مسلمانوں کے کمزور ہونے کی باتیں کر رہے ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رمل کرنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین کو دکھا سکیں کہ انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا ابن ذر ، عن ابيه ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لجبريل عليه السلام" الا تزورنا اكثر مما تزورنا، فنزلت وما نتنزل إلا بامر ربك له ما بين ايدينا وما خلفنا سورة مريم آية 64 إلى آخر الآية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ ذَرٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام" أَلَا تَزُورُنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا، فَنَزَلَتْ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا سورة مريم آية 64 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (فترت وحی کا زمانہ گزرنے کے بعد) حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ ”آپ ہمارے پاس ملاقات کے لئے اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے جتنا اب آتے ہیں؟“ اس پر آیت نازل ہوئی: «﴿وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ . . . ﴾ [مريم: 64] »”ہم تو اسی وقت زمین پر اترتے ہیں جب آپ کے رب کا حکم ہوتا ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کی قربانی دی، جن میں ابوجہل کا ایک سرخ اونٹ بھی شامل تھا، جس کی ناک میں چاندی کا حلقہ پڑا ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: حسن، أبن أبى ليلي سيء الحفظ ولكنه توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن جابر ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بجبنة، قال فجعل اصحابه يضربونها بالعصي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ضعوا السكين واذكروا اسم الله وكلوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِجُبْنَةٍ، قَالَ فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَضْرِبُونَهَا بِالْعِصِيِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ضَعُوا السِّكِّينَ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ وَكُلُوا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے پنیر آیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے لاٹھی سے ہلانے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھریاں رکھ دو اور بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر ، وقد توبع.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے چاشت کی دو رکعتوں اور وتر کا حکم دیا گیا ہے لیکن انہیں امت پر فرض نہیں کیا گیا۔“