(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن عبد الرحمن بن عابس ، قال: قلت لابن عباس : اشهدت العيد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، ولولا مكاني منه ما شهدته لصغري، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم" فصلى عند دار كثير بن الصلت ركعتين، ثم خطب لم يذكر اذانا ولا إقامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا مَكَانِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ لِصِغَرِي، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَصَلَّى عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَطَبَ لَمْ يَذْكُرْ أَذَانًا وَلَا إِقَامَةً".
عبدالرحمن بن عابس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کے موقع پر شریک ہوئے ہیں؟ فرمایا: ہاں! اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرا تعلق نہ ہوتا تو اپنے بچپن کی وجہ سے میں اس موقع پر کبھی موجود نہ ہوتا، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دار کثیر بن الصلت کے قریب دو رکعت نماز عید پڑھائی، پھر خطبہ ارشاد فرمایا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس میں اذان یا اقامت کا کچھ ذکر نہیں کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي بكر بن ابي الجهم بن صخير ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عباس ، قال:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الخوف بذي قرد ارض من ارض بني سليم، فصف الناس خلفه صفين صف موازي العدو وصف خلفه، فصلى بالصف الذي يليه ركعة، ثم نكص هؤلاء إلى مصاف هؤلاء، وهؤلاء إلى مصاف هؤلاء، فصلى بهم ركعة اخرى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ بِذِي قَرَدٍ أَرْضٍ مِنْ أَرْضِ بَنِي سُلَيْمٍ، فَصَفَّ النَّاسُ خَلْفَهُ صَفَّيْنِ صَفٌّ مُوَازِي الْعَدُوِّ وَصَفٌّ خَلْفَهُ، فَصَلَّى بِالصَّفِّ الَّذِي يَلِيهِ رَكْعَةً، ثُمَّ نَكَصَ هَؤُلَاءِ إِلَى مَصَافِّ هَؤُلَاءِ، وَهَؤُلَاءِ إِلَى مَصَافِّ هَؤُلَاءِ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً أُخْرَى".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ایک علاقے میں جس کا نام ذی قرد تھا، نماز خوف پڑھائی، لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دو صفیں بنا لیں، ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی اور ایک صف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز کے لئے کھڑی ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے لوگوں کی جگہ الٹے پاؤں چلے گئے اور وہ لوگ ان کی جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا اسامة بن زيد ، قال: سالت طاوسا عن السبحة في السفر؟ قال: وكان الحسن بن مسلم بن يناق جالسا، فقال الحسن بن مسلم وطاوس يسمع: حدثنا طاوس ، عن ابن عباس ، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الحضر والسفر، فكما تصلي في الحضر قبلها وبعدها، فصل في السفر قبلها وبعدها" , قال وكيع مرة: وصلها في السفر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنِ السُّبْحَةِ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ يَنَّاقٍ جَالِسًا، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ وَطَاوُسٌ يَسْمَعُ: حَدَّثَنَا طَاوُسٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَكَمَا تُصَلِّي فِي الْحَضَرِ قَبْلَهَا وَبَعْدَهَا، فَصَلِّ فِي السَّفَرِ قَبْلَهَا وَبَعْدَهَا" , قَالَ وَكِيعٌ مَرَّةً: وَصَلِّهَا فِي السَّفَرِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور حضر کی نماز کی رکعتیں مقرر فرما دی ہیں، چنانچہ ہم حضر میں اس سے پہلے اور بعد میں بھی نماز پڑھتے تھے، اس لئے تم سفر میں بھی پہلے اور بعد میں نماز پڑھ سکتے ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے چاشت کی دو رکعتوں اور وتر کا حکم دیا گیا ہے لیکن انہیں امت پر فرض نہیں کیا گیا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾» کی تلاوت فرماتے تو یہ بھی کہتے: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى» ۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا زمعة بن صالح ، عن سلمة بن وهرام ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: لما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بوادي عسفان حين حج، قال:" يا ابا بكر، اي واد هذا؟" , قال: وادي عسفان، قال:" لقد مر به هود وصالح على بكرات حمر خطمها الليف ازرهم العباء وارديتهم النمار يلبون يحجون البيت العتيق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَادِي عُسْفَانَ حِينَ حَجَّ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، أَيُّ وَادٍ هَذَا؟" , قَالَ: وَادِي عُسْفَانَ، قَالَ:" لَقَدْ مَرَّ بِهِ هُودٌ وَصَالِحٌ عَلَى بَكَرَاتٍ حُمْرٍ خُطُمُهَا اللِّيفُ أُزُرُهُمْ الْعَبَاءُ وَأَرْدِيَتُهُمْ النِّمَارُ يُلَبُّونَ يَحُجُّونَ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر وادی عسفان پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”اے ابوبکر! یہ کون سی وادی ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: وادی عسفان، فرمایا: ”یہاں سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ایسی سرخ جوان اونٹنیوں پر ہو کر گزرے ہیں جن کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی، ان کے تہبند عباء تھے اور ان کی چادریں چیتے کی کھالیں تھیں اور وہ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ کے حج کے لئے جارہے تھے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، زمعة ضعيف وسلمة بن وهرام مختلف فيه.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن يحيى بن عبيد ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" ينبذ له ليلة الخميس، فيشربه يوم الخميس ويوم الجمعة، قال: واراه قال: ويوم السبت، فإذا كان عند العصر فإن بقي منه شيء سقاه الخدم او امر به فاهريق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُنْبَذُ لَهُ لَيْلَةَ الْخَمِيسِ، فَيَشْرَبُهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: وَأُرَاهُ قَالَ: وَيَوْمَ السَّبْتِ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْعَصْرِ فَإِنْ بَقِيَ مِنْهُ شَيْءٌ سَقَاهُ الْخَدَمَ أَوْ أَمَرَ بِهِ فَأُهْرِيقَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جمعرات سے پہلے والی رات کو نبیذ بنائی جاتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے جمعرات کے دن، جمعہ کے دن اور ہفتہ کی شام تک نوش فرماتے، اس کے بعد اگر عصر تک کچھ بچ جاتی تو کسی دوسرے کو پلا دیتے یا پھر بہانے کا حکم دے دیتے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص قرآن کریم میں بغیر علم کے کوئی بات کہے تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہیے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف عبد الأعلى الثعلبي.
(حديث مرفوع) حدثني وكيع ، حدثنا سفيان ، عن آدم بن سليمان مولى خالد بن خالد، قال: سمعت سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: لما نزلت هذه الآية إن تبدوا ما في انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله سورة البقرة آية 284، قال: دخل قلوبهم منها شيء لم يدخل قلوبهم من شيء، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قولوا سمعنا واطعنا وسلمنا"، فالقى الله الإيمان في قلوبهم، فانزل الله عز وجل: آمن الرسول بما انزل إليه من ربه والمؤمنون كل آمن بالله وملائكته وكتبه ورسله لا نفرق بين احد من رسله وقالوا سمعنا واطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا او اخطانا ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا على القوم الكافرين سورة البقرة آية 285 - 286، قال ابو عبد الرحمن: آدم هذا هو ابو يحيى بن آدم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ مَوْلَى خَالِدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ سورة البقرة آية 284، قَالَ: دَخَلَ قُلُوبَهُمْ مِنْهَا شَيْءٌ لَمْ يَدْخُلْ قُلُوبَهُمْ مِنْ شَيْءٍ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَسَلَّمْنَا"، فَأَلْقَى اللَّهُ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ سورة البقرة آية 285 - 286، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: آدَمُ هَذَا هُوَ أَبُو يَحْيَى بْنُ آدَمَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: «﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ﴾ [البقرة: 284] »”تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اسے تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ تم سے ان سب کا حساب لے گا۔“ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس پر قلبی طور پر ایسی بےچینی محسوس ہوئی جو اس سے قبل نہیں ہوئی تھی (کہ دلی ارادہ کا بھی حساب کتاب ہوگا تو کیا بنے گا؟) لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”تم یہی کہو: ہم نے سن لیا، ہم نے اطاعت کی اور سر تسلیم خم کر دیا“، چنانچہ اللہ نے ان کے دلوں میں پہلے سے موجود ایمان کو مزید راسخ کر دیا اور سورہ بقرہ کی یہ اختتامی آیات نازل فرمائیں: «﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ o لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ [البقرة: 285-286] » جن کا ترجمہ یہ ہے: ”پیغمبر اس چیز پر ایمان لے آئے جو ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل ہوئی، اور مومنین بھی، یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لے آئے اور کہتے ہیں کہ ہم کسی پیغمبر میں تفریق روا نہیں رکھتے، اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کی، پروردگار! ہمیں معاف فرما، اور آپ ہی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا، انسان کو انہی چیزوں کا فائدہ ہوگا جو اس نے کمائیں، اور انہیں چیزوں کا نقصان ہوگا جو اس نے کمائیں، پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے غلطی ہوجائے تو اس پر ہمارا مؤاخذہ نہ فرمایا، اور ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، پروردگار! ہم پر اس چیز کا بوجھ نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے، ہم سے درگزر فرما، ہمیں معاف فرما، ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا آقا ہے، اس لئے تو ہی کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا زكريا بن إسحاق المكي ، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي ، عن ابي معبد ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث معاذ بن جبل إلى اليمن، قال" إنك تاتي قوما اهل كتاب، فادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله واني رسول الله، فإن هم اطاعوك لذلك فاعلمهم ان الله عز وجل افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله عز وجل افترض عليهم صدقة في اموالهم تؤخذ من اغنيائهم وترد في فقرائهم، فإن هم اطاعوك لذلك فإياك وكرائم اموالهم، واتق دعوة المظلوم فإنها ليس بينها وبين الله عز وجل حجاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَكِّيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ" إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حِجَابٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی مکرم، سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ ”تم ان لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، انہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا پیغمبر ہوں، اگر وہ تمہاری اس بات پر اطاعت کریں تو انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ اس بات میں بھی تمہاری اطاعت کر لیں تو انہیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان کے مال پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان ہی کے غرباء میں تقسیم کر دی جائے گی، جب وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان کے عمدہ مال چھانٹی کرنے سے اپنے آپ کو بچانا اور مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔“