سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف گوشت یا ہڈی والا گوشت تناول فرمایا اور نماز پڑھ لی اور پانی کو چھوا تک نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا ابن جريج ، حدثنا عطاء ، عن ابن عباس ، ان داجنة لميمونة ماتت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا انتفعتم بإهابها الا دبغتموه، فإنه ذكاته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ دَاجِنَةً لِمَيْمُونَةَ مَاتَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِإِهَابِهَا أَلَّا دَبَغْتُمُوهُ، فَإِنَّهُ ذَكَاتُهُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک بکری مر گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ تم نے اسے دباغت کیوں نہیں دی؟ کیونکہ دباغت سے تو کھال پاک ہوجاتی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، سمعت الاعمش ، حدثني مسلم ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، ان امراة، قالت: يا رسول الله، إنه كان على امها صوم شهر فماتت، افاصومه عنها؟ قال:" لو كان على امك دين، اكنت قاضيته؟" , قالت: نعم، قال:" فدين الله عز وجل احق ان يقضى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ ، حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَى أُمِّهَا صَوْمُ شَهْرٍ فَمَاتَتْ، أَفَأَصُومُهُ عَنْهَا؟ قَالَ:" لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ، أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" فَدَيْنُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے، کیا میں ان کی قضاء کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں یا نہیں؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں، فرمایا: ”پھر اللہ کا قرض تو ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1953 - تعليقاً، م: 1148.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن هشام ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم" المترجلات من النساء، والمخنثين من الرجال، وقال: اخرجوهم من بيوتكم" , قال: فاخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فلانا، واخرج عمر فلانا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" الْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَالْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالَ، وَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ" , قَالَ: فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فُلَانًا، وَأَخْرَجَ عُمَرُ فُلَانًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو ہیجڑے بن جاتے ہیں، اور ان عورتوں پر جو مرد بن جاتی ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دیا کرو“، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے شخص کو نکالا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نکالا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني سليمان يعني الاعمش ، عن يحيى بن عمارة ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال:" مرض ابو طالب، فاتته قريش، واتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوده، وعند راسه مقعد رجل، فقام ابو جهل فقعد فيه، فقالوا: إن ابن اخيك يقع في آلهتنا، قال: ما شان قومك يشكونك؟ قال:" يا عم، اريدهم على كلمة واحدة تدين لهم بها العرب وتؤدي العجم إليهم الجزية"، قال: ما هي؟ قال:" لا إله إلا الله"، فقاموا، فقالوا: اجعل الآلهة إلها واحدا، قال: ونزل ص والقرآن ذي الذكر فقرا حتى بلغ إن هذا لشيء عجاب سورة ص آية 1 - 5 , قال عبد الله: قال ابي: وحدثنا ابو اسامة ، حدثنا الاعمش ، حدثنا عباد ، فذكر نحوه، وقال ابي: قال الاشجعي: يحيى بن عباد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي الْأَعْمَشَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ، فَأَتَتْهُ قُرَيْشٌ، وَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، وَعِنْدَ رَأْسِهِ مَقْعَدُ رَجُلٍ، فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ فَقَعَدَ فِيهِ، فَقَالُوا: إِنَّ ابْنَ أَخِيكَ يَقَعُ فِي آلِهَتِنَا، قَالَ: مَا شَأْنُ قَوْمِكَ يَشْكُونَكَ؟ قَالَ:" يَا عَمِّ، أُرِيدُهُمْ عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي الْعَجَمُ إِلَيْهِمْ الْجِزْيَةَ"، قَالَ: مَا هِيَ؟ قَالَ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، فَقَامُوا، فَقَالُوا: أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا، قَالَ: وَنَزَلَ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ سورة ص آية 1 - 5 , قَالَ عَبْدِ اللهِ: قَالَ أَبِي: وَحَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وقَالَ أَبِي: قَالَ الْأَشْجَعِيُّ: يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ابوطالب بیمار ہوئے، قریش کے کچھ لوگ ان کی بیمار پرسی کے لئے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، ابوطالب کے سرہانے ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی، وہاں ابوجہل آ کر بیٹھ گیا، قریش کے لوگ ابوطالب سے کہنے لگے کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں میں کیڑے نکالتا ہے، ابوطالب نے کہا کہ آپ کی قوم کے یہ لوگ آپ سے کیا شکایت کر رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چچا جان! میں ان کو ایسے کلمے پر لانا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے سارا عرب ان کی اطاعت کرے گا اور سارا عجم انہیں ٹیکس ادا کرے گا“، انہوں نے پوچھا: وہ کون سا کلمہ ہے؟ فرمایا: ” «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ»“ یہ سن کر وہ لوگ یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے کہ کیا یہ سارے معبودوں کو ایک معبود بنانا چاہتا ہے؟ اس پر سورت صٓ نازل ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاوت فرمائی یہاں تک کہ «﴿إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾» پر پہنچے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عيينة بن عبد الرحمن ، حدثني ابي ، قال: جاء رجل إلى ابن عباس ، فقال: إني رجل من اهل خراسان وإن ارضنا ارض باردة، فذكر من ضروب الشراب، فقال: اجتنب ما اسكر من زبيب او تمر او ما سوى ذلك، قال: ما تقول في نبيذ الجر، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" عن نبيذ الجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ: إِنِّي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ وَإِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ بَارِدَةٌ، فَذَكَرَ مِنْ ضُرُوبِ الشَّرَابِ، فَقَالَ: اجْتَنِبْ مَا أَسْكَرَ مِنْ زَبِيبٍ أَوْ تَمْرٍ أَوْ مَا سِوَى ذَلِكَ، قَالَ: مَا تَقُولُ فِي نَبِيذِ الْجَرِّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ".
ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا تعلق خراسان سے ہے، ہمارا علاقہ ٹھنڈا علاقہ ہے، اور اس نے شراب کے برتنوں کا ذکر کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جو چیزیں نشہ آور ہیں مثلا کشمش یا کھجور وغیرہ، ان کی شراب سے مکمل طور پر اجتناب کرو، اس نے پوچھا کہ مٹکے کی نبیذ کے بارے آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا وہ شخص میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں جو انتہائی کالا سیاہ اور کشادہ ٹانگوں والا ہوگا اور خانہ کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔“
ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وضو کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”دو یا تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر اسے خوب اچھی طرح صاف کیا کرو۔“