سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا ذکر کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو میرے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثنا قتادة ، قال: سمعت جابر بن زيد ، عن ابن عباس ، قال:" جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء بالمدينة، في غير خوف، ولا مطر"، قيل لابن عباس وما اراد إلى ذلك؟ قال: اراد ان لا يحرج امته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَيْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ"، قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ وَمَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا، اس وقت نہ کوئی خوف تھا اور نہ ہی بارش، کسی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی امت تنگی میں نہ رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي ظبيان ، عن ابن عباس ، قال:" اتى النبي صلى الله عليه وسلم، رجل من بني عامر، فقال: يا رسول الله، ارني الخاتم الذي بين كتفيك، فإني من اطب الناس، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اريك آية؟" , قال: بلى، قال: فنظر إلى نخلة، فقال: ادع ذلك العذق، قال: فدعاه، فجاء ينقز حتى قام بين يديه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارجع"، فرجع إلى مكانه، فقال العامري: يا آل بني عامر، ما رايت كاليوم رجلا اسحر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرِنِي الْخَاتَمَ الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْكَ، فَإِنِّي مِنْ أَطَبِّ النَّاسِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أُرِيكَ آيَةً؟" , قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَقَالَ: ادْعُ ذَلِكَ الْعِذْقَ، قَالَ: فَدَعَاهُ، فَجَاءَ يَنْقُزُ حَتَّى قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ"، فَرَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ، فَقَالَ الْعَامِرِيُّ: يَا آلَ بَنِي عَامِرٍ، مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رَجُلًا أَسْحَرَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو عامر کا ایک آدمی آیا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اپنی وہ مہر نبوت دکھائیے جو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ہے، میں لوگوں میں بڑا مشہور طبیب ہوں (اس کا علاج کر دیتا ہوں)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کو ٹالتے ہوئے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک معجزہ نہ دکھاؤں؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے ایک درخت پر نگاہ ڈال کر فرمایا: ”اس ٹہنی کو آواز دو“، اس نے آواز دی تو وہ ٹہنی اچھلتی کودتی ہوئی آ کر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اپنی جگہ واپس چلی جاؤ“، چنانچہ وہ اپنی جگہ واپس چلی گئی، یہ دیکھ کر بنو عامر کا وہ آدمی کہنے لگا: اے آل بنی عامر! میں نے آج کی طرح کا زبردست جادوگر کبھی نہیں دیکھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”باد صبا (وہ ہوا جو باب کعبہ کی طرف سے آتی ہے) کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور قوم عاد کو پچھم سے چلنے والی ہوا سے تباہ کیا گیا تھا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ «﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى﴾ [النجم: 11] »”آنکھ نے جو دیکھا، دل نے اس کی تکذیب نہیں کی“ سے مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل کی آنکھوں سے اپنے پروردگار کا دو مرتبہ دیدار کیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن ابن حدير ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ولدت له ابنة، فلم يئدها، ولم يهنها، ولم يؤثر ولده عليها يعني: الذكر , ادخله الله بها الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنِ ابْنِ حُدَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وُلِدَتْ لَهُ ابْنَةٌ، فَلَمْ يَئِدْهَا، وَلَمْ يُهِنْهَا، وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا يَعْنِي: الذَّكَرَ , أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهَا الْجَنَّةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کے یہاں بیٹی کی پیدائش ہو، وہ اسے زندہ درگور کرے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخلہ عطاء فرمائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عاصم الاحول ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" سافر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقام تسع عشرة، يصلي ركعتين ركعتين"، قال ابن عباس: فنحن إذا سافرنا، فاقمنا تسع عشرة، صلينا ركعتين ركعتين، فإذا اقمنا اكثر من ذلك، صلينا اربعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَامَ تِسْعَ عَشْرَةَ، يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَنَحْنُ إِذَا سَافَرْنَا، فَأَقَمْنَا تِسْعَ عَشْرَةَ، صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، صَلَّيْنَا أَرْبَعًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر روانہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں 19 دن تک ٹھہرے رہے لیکن نماز دو دو رکعت کر کے ہی پڑھتے رہے، اس لئے ہم بھی جب سفر کرتے ہیں اور 19 دن تک ٹھہرتے ہیں تو دو دو رکعت کر کے یعنی قصر کر کے نماز پڑھتے ہیں، اور جب اس سے زیادہ دن ٹھہرتے ہیں تو چار رکعتیں یعنی پوری نماز پڑھتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ طائف کے دن مشرکوں کے ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعنه والحكم بن عتبة لم يسمعه من مقسم، وإنما هو كتاب.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الشيباني ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم،" عن المحاقلة، والمزابنة"، وكان عكرمة يكره بيع الفصيل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ"، وَكَانَ عِكْرِمَةُ يَكْرَهُ بَيْعَ الْفَصِيلِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع وشراء میں محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، راوی کہتے ہیں کہ عکرمہ اس کھیتی کی بیع وشراء کو مکروہ جانتے تھے جو ابھی تیار نہ ہوئی ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جرش کی طرف ایک خط لکھا جس میں انہیں اس بات سے منع فرمایا کہ وہ کشمش اور کھجور کو خلط ملط کر کے اس کی نبیذ بنا کر استعمال کریں۔