(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، حدثنا ابو عثمان ، انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال مرة:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، من كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس بسادس"، او كما قال , وان ابا بكر جاء بثلاثة، فانطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم بعشرة، وابو بكر بثلاثة، قال: فهو انا، وابي وامي، ولا ادري، هل قال: وامراتي وخادم بين بيتنا وبيت ابي بكر، وإن ابا بكر تعشى عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم لبث حتى صليت العشاء , ثم رجع فلبث حتى نعس رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاء بعدما مضى من الليل ما شاء الله , قالت له امراته: ما حبسك عن اضيافك او قالت ضيفك؟ قال: اوما عشيتهم؟ قالت: ابوا حتى تجيء , قد عرضوا عليهم فغلبوهم , قال: فذهبت انا فاختبات , وقال: يا عنتر او يا غنثر فجدع وسب , وقال: كلوا لا هنيا , وقال: والله لا اطعمه ابدا , قال: وحلف الضيف ان لا يطعمه حتى يطعمه ابو بكر قال: فقال ابو بكر: هذه من الشيطان , قال: فدعا بالطعام فاكل , قال: فايم الله ما كنا ناخذ من لقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها , قال: حتى شبعوا وصارت اكثر مما كانت قبل ذلك , فنظر إليها ابو بكر فإذا هي كما هي او اكثر , فقال لامراته: يا اخت بني فراس ما هذا: قالت: لا وقرة عيني , لهي الآن اكثر منها قبل ذلك بثلاث مرار , فاكل منها ابو بكر وقال: إنما كان ذلك من الشيطان يعني: يمينه , ثم اكل لقمة ثم حملها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده , قال: وكان بيننا وبين قوم عقد فمضى الاجل , فعرفنا اثني عشر رجلا مع كل رجل اناس , الله اعلم كم مع كل رجل غير انه بعث معهم فاكلوا منها اجمعون , او كما قال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ مَرَّةً:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ"، أَوْ كَمَا قَالَ , وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، فَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ، قَالَ: فَهُوَ أَنَا، وَأَبِي وَأُمِّي، وَلَا أَدْرِي، هَلْ قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّيْتُ الْعِشَاءَ , ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ , قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ؟ قَالَ: أَوَمَا عَشَّيْتِهِمْ؟ قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ , قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ , قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ , وقَالَ: يَا عُنتَرُ أَوْ يَا غنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ , وَقَالَ: كُلُوا لَا هَنِيًّا , وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا , قَالَ: وَحَلَفَ الضَّيْفُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ , قَالَ: فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ , قَالَ: فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا , قَالَ: حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ , فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ , فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا: قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي , لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ , فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي: يَمِينَهُ , ثُمَّ أَكَلَ لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ , قَالَ: وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ , فَعَرَّفْنَا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ أُنَاسٌ , اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ , أَوْ كَمَا قَالَ.
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا، اس دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کا وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا: نہیں! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کر دیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کر دیا، میں جا کر ایک جگہ چھپ گیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے سخت سست کہتے ہوئے آوازیں دیں، پھر مہمانوں سے فرمایا: کھاؤ، تم نے اچھا نہیں کیا، اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہو گیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے مزید اضافہ ہو جاتا تھا، حتی کہ وہ سب سیراب ہو گئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! یہ تو اصل مقدار سے بھی تین گنا زیادہ ہو گیا ہے، چنانچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھجوایا، اور راوی نے ذکر کیا کہ ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک معاہدہ تھا، اس کی مدت ختم ہو گئی، ہم نے بارہ آدمیوں کو چوہدری مقرر کیا جن میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھے، جن کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے، التبہ یہ واضح ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھے، اور ان سب نے بھی اس کھانے کو کھایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا معتمر بن سليمان ، قال: سمعت ابي ، يقول: حدثنا ابو عثمان ، انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة، ومن كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس بسادس"، او كما قال وان ابا بكر جاء بثلاثة , وانطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال: فهو وانا وابي وامي ولا ادري، هل قال: امراتي وخادم بين بيتنا وبيت ابي بكر رضي الله تعالى عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُول: حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ"، أَوْ كَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ , وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، قَالَ: فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي، هَلْ قَالَ: امْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ.
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین، (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن بحر ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا عثمان بن حكيم ، حدثنا خالد بن سلمة ، ان عبد الحميد بن عبد الرحمن دعا موسى بن طلحة حين عرس على ابنه، فقال: يا ابا عيسى، كيف بلغك في الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال موسى: سالت زيد بن خارجة، عن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال زيد : إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسي، فقلت: كيف الصلاة عليك؟ قال:" صلوا واجتهدوا، ثم قولوا اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم إنك حميد مجيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ دَعَا مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ حِينَ عَرَّسَ عَلَى ابْنِهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا عِيسَى، كَيْفَ بَلَغَكَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ مُوسَى: سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ، عَنِ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ زَيْدٌ : إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَفْسِي، فَقُلْتُ: كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:" صَلُّوا وَاجْتَهِدُوا، ثُمَّ قُولُوا اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
خالد بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبدالحمید بن عبدالرحمن نے موسیٰ بن طلحہ کو اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں بلایا اور ان سے پوچھا کہ اے ابوعیسیٰ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے متعلق روایت آپ تک کن الفاظ سے پہنچی ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے متعلق سوال کیا تھا، انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے خود بھی یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ ”خوب احتیاط کے ساتھ نماز پڑھ کر یوں کہو: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»”اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح برکتوں کا نزول فرما جیسے آل ابراہیم پر کیا تھا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن بحر ، حدثنا محمد بن سلمة ، عن محمد بن إسحاق ، عن يحيى بن عباد ، عن ابيه عباد بن عبد الله بن الزبير ، قال: اتى الحارث بن خزمة بهاتين الآيتين من آخر براءة:" لقد جاءكم رسول من انفسكم سورة التوبة آية 128 إلى عمر بن الخطاب، فقال: من معك على هذا؟ قال: لا ادري والله إلا، اني اشهد لسمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ووعيتها وحفظتها، فقال عمر: وانا اشهد لسمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: لو كانت ثلاث آيات، لجعلتها سورة على حدة، فانظروا سورة من القرآن، فضعوها فيها، فوضعتها في آخر براءة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: أَتَى الْحَارِثُ بْنُ خَزَمَةَ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ بَرَاءَةَ:" لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ سورة التوبة آية 128 إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي وَاللَّهِ إِلَّا، أني أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَعَيْتُهَا وَحَفِظْتُهَا، فَقَالَ عُمَرُ: وَأَنَا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ كَانَتْ ثَلَاثَ آيَاتٍ، لَجَعَلْتُهَا سُورَةً عَلَى حِدَةٍ، فَانْظُرُوا سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَضَعُوهَا فِيهَا، فَوَضَعْتُهَا فِي آخِرِ بَرَاءَةَ".
حضرت عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سیدنا حارث بن خزمہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سورہ براءۃ کی دو آیتیں: «﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ . . . . .﴾» سے آخر تک لے کر آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر آپ کے ساتھ کون گواہ ہے؟ انہوں نے فرمایا: واللہ! مجھے اس کا تو پتہ نہیں، البتہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ ان آیات کو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یاد کر کے محفوظ کیا ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے سنا ہے، پھر فرمایا: اگر یہ تین آیتیں ہوتیں تو میں انہیں علیحدہ سورت کے طور پر شمار کر لیتا، اب قرآن کریم کی کسی سورت کو دیکھ کر اس میں یہ دو آیتیں رکھ دو، چنانچہ میں نے انہیں سورہ براءۃ کے آخر میں رکھ دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتدليس محمد بن إسحاق ولا نقطاعه، عباد بن عبدالله لم يدرك قصة جمع القرآن.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ - جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں - کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں پیش کیں، لوگ ایک ساتھ دو دو تین تین کھجوریں اٹھا اٹھا کر کھانے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح ملا کر نہ کھاؤ (بلکہ ایک ایک کر کے کھاؤ)۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو عامر الخزاز سيء الحفظ والحسن البصري مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا ابو عامر ، عن الحسن ، عن سعد مولى ابي بكر، وكان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه خدمته، فقال:" يا ابا بكر، اعتق سعدا"، فقال: يا رسول الله، ما لنا ماهن غيره، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعتق سعدا اتتك الرجال، اتتك الرجال"، قال ابو داود: يعني: السبي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَعْدٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ خِدْمَتُهُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، أَعْتِقْ سَعْدًا"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا مَاهِنٌ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْتِقْ سَعْدًا أَتَتْكَ الرِّجَالُ، أتَتْكَ الرِّجَالُ"، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: يَعْنِي: السَّبْيَ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خدمت سے بہت خوش ہوتے تھے، اس لئے ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”ابوبکر! سعد کو آزاد کر دو۔“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس گھر کے کام کاج کرنے والا کوئی اور نہیں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سعد کو آزاد کر دو، عنقریب تمہارے پاس قیدی آیا چاہتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف أبى عامر الخزاز ولعنعنة الحسن.