(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، حدثنا المسعودي ، عن نفيل بن هشام بن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل ، عن ابيه ، عن جده ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة هو وزيد بن حارثة، فمر بهما زيد بن عمرو بن نفيل، فدعواه إلى سفرة لهما، فقال: يا ابن اخي , إني لا آكل مما ذبح على النصب، قال: فما رؤي النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك اكل شيئا مما ذبح على النصب، قال: قلت: يا رسول الله، إن ابي كان كما قد رايت وبلغك، ولو ادركك لآمن بك واتبعك فاستغفر له، قال:" نعم، فاستغفر له، فإنه يبعث يوم القيامة امة واحدة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ نُفَيْلِ بْنِ هِشَامِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ هُوَ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَمَرَّ بِهِمَا زَيْدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَدَعَوَاهُ إِلَى سُفْرَةٍ لَهُمَا، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي , إِنِّي لَا آكُلُ مِمَّا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ، قَالَ: فَمَا رؤيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ أَكَلَ شَيْئًا مِمَّا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي كَانَ كَمَا قَدْ رَأَيْتَ وَبَلَغَكَ، وَلَوْ أَدْرَكَكَ لَآمَنَ بِكَ وَاتَّبَعَكَ فَاسْتَغْفِرْ لَهُ، قَالَ:" نَعَمْ، فَأَسْتَغْفِرُ لَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُمَّةً وَاحِدَةً".
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ - جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور ان کے ساتھ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے - زید بن عمرو بن نفیل کا ان دونوں کے پاس سے گذر ہوا، ان دونوں نے زید کو کھانے کی دعوت دی کیونکہ وہ اس وقت دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے، زید کہنے لگے کہ بھتیجے! بتوں کے سامنے لے جا کر ذبح کئے جانے والے جانوروں کا گوشت میں نہیں کھاتا (یہ قبل از بعثت کا واقعہ ہے)، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس قسم کا کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ سیدنا سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد صاحب کو آپ نے خود بھی دیکھا ہے اور آپ کو ان کے حوالے سے معلوم بھی ہے، اگر وہ آپ کا زمانہ نبوت پا لیتے تو آپ پر ایمان لا کر آپ کی پیروی ضرور کرتے، آپ ان کے لئے استغفار کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں ان کے لئے استغفار کروں گا کیونکہ قیامت کے دن انہیں تنہا ایک امت کے برابر اٹھایا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف، المسعودي قد اختلط ويزيد روى عنه بعد الاختلاط ونفيل بن هشام وكذا أبوه لم يوثقهما غير ابن حبان.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن الحارث بن عبد الرحمن ، عن ابي سلمة ، قال: قال لنا مروان: انطلقوا فاصلحوا بين هذين سعيد بن زيد، واروى بنت اويس، فاتينا سعيد بن زيد ، فقال: اترون اني قد استنقصت من حقها شيئا , اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من اخذ شبرا من الارض بغير حقه طوقه من سبع ارضين , ومن تولى قوما بغير إذنهم فعليه لعنة الله , ومن اقتطع مال اخيه بيمينه فلا بارك الله له فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: قَالَ لَنَا مَرْوَانُ: انْطَلِقُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَ هَذَيْنِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَأَرْوَى بِنْتِ أُوَيْسٍ، فَأَتَيْنَا سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ ، فَقَالَ: أَتُرَوْنَ أَنِّي قَدْ اسْتَنْقَصْتُ مِنْ حَقِّهَا شَيْئًا , أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ , وَمَنْ تَوَلَّى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ , وَمَنْ اقْتَطَعَ مَالَ أَخِيهِ بِيَمِينِهِ فَلَا بَارَكَ اللَّهُ لَهُ فِيهِ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے کہا کہ جا کر ان دونوں یعنی سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور راوی کے درمیان صلح کرا دو، ہم سیدنا سعید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے اس عورت کا کچھ حق مارا ہوگا؟ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص ناحق کسی زمین پر ایک بالشت بھر قبضہ کرتا ہے، اس کے گلے میں زمین کا وہ ٹکڑا ساتوں زمینوں سے لے کر طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، اور جو شخص کسی قوم کی اجازت کے بغیر ان سے موالات کی نسبت اختیار کرتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہے، اور جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کر لیتا ہے، اللہ اس میں کبھی برکت نہیں دیتا۔“
عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مدینہ منورہ حاضری کے موقع پر اپنے بھائی سے حصہ تقسیم کروا لیا، اس پر سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اس زمین یا مکان کی قیمت میں برکت نہیں ہوتی جو زمین یا مکان ہی میں نہ لگا دی جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، قيس بن الربيع ضعيف. وفي الباب عن حذيفة مرفوعاً وموقوفاً، والموقوف أصح.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، انبانا شعيب ، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي حسين ، قال: بلغني ان لقمان كان يقول: يا بني، لا تعلم العلم لتباهي به العلماء، او تماري به السفهاء، وترائي به في المجالس , فذكره، وقال: حدثنا نوفل بن مساحق ، عن سعيد بن زيد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه , قال:" من اربى الربا الاستطالة في عرض مسلم بغير حق، وإن هذه الرحم شجنة من الرحمن، فمن قطعها، حرم الله عليه الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ لُقْمَانَ كَانَ يَقُولُ: يَا بُنَيَّ، لَا تَعَلَّمْ الْعِلْمَ لِتُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ تُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، وَتُرَائِيَ بِهِ فِي الْمَجَالِسِ , فَذَكَرَهُ، وَقَالَ: حَدَّثَنَا نَوْفَلُ بْنُ مُسَاحِقٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ , قَالَ:" مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الِاسْتِطَالَةُ فِي عِرْضِ مُسْلِمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَإِنَّ هَذِهِ الرَّحِمَ شِجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، فَمَنْ قَطَعَهَا، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
عبداللہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت لقمان علیہ السلام کا یہ قول معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹے! علم اس لئے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعے علماء پر فخر کرو اور جہلاء اور بیوقوفوں سے جھگڑتے پھرو، اور محفلوں میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگو۔ پھر انہوں نے سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے بڑا سود یہ ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی عزت پر دست درازی کی جائے، رحم (قرابت داری) رحمٰن کی شاخ ہے، جو شخص قرابت داری ختم کرے گا، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: قول لقمان بلاغ، فهو منقطع، وأما القسم المرفوع، فإسناده صحيح.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے، جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے، جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے، اور جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔“
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ عرب! اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اس نے تم سے ٹیکس اٹھا دیئے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف. إبراهيم بن المهاجر لين الحديث والراوي عن عمرو بن حريث لا يعرف.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اپنے چچاؤں کے ساتھ - جبکہ ابھی میں نوعمر تھا - حلف المطیبین - جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے - میں شریک ہوا تھا، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیئے جائیں۔“
قال الزهري: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لم يصب الإسلام حلفا إلا زاده شدة، ولا حلف في الإسلام" , وقد الف رسول الله صلى الله عليه وسلم بين قريش , والانصار.قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمْ يُصِبْ الْإِسْلَامُ حِلْفًا إِلَّا زَادَهُ شِدَّةً، وَلَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ" , وَقَدْ أَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ , وَالْأَنْصَارِ.
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ”اسلام نے جو بھی معاہدہ کیا اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے، اور اسلام اس کا قائل نہیں ہے۔“ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرما دی تھی۔
حكم دارالسلام: مرسل وقد ورد معناه في احادیث صحیحة کما فی مسلم : 2530
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن سعد ، حدثني محمد بن إسحاق ، عن مكحول ، عن كريب ، عن ابن عباس ، انه قال له عمر: يا غلام، هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم , او من احد من اصحابه , إذا شك الرجل في صلاته ماذا يصنع؟ قال: فبينا هو كذلك , إذ اقبل عبد الرحمن بن عوف، فقال: فيم انتما؟ فقال عمر: سالت هذا الغلام , هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، او احد من اصحابه , إذا شك الرجل في صلاته ماذا يصنع؟ فقال عبد الرحمن , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إذا شك احدكم في صلاته، فلم يدر اواحدة صلى ام ثنتين , فليجعلها واحدة، وإذا لم يدر ثنتين صلى ام ثلاثا، فليجعلها ثنتين، وإذا لم يدر اثلاثا صلى ام اربعا، فليجعلها ثلاثا، ثم يسجد إذا فرغ من صلاته وهو جالس، قبل ان يسلم، سجدتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا غُلَامُ، هَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَوْ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ , إِذَا شَكَّ الرَّجُلُ فِي صَلَاتِهِ مَاذَا يَصْنَعُ؟ قَالَ: فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ , إِذْ أَقْبَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَقَالَ: فِيمَ أَنْتُمَا؟ فَقَالَ عُمَرُ: سَأَلْتُ هَذَا الْغُلَامَ , هَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ , إِذَا شَكَّ الرَّجُلُ فِي صَلَاتِهِ مَاذَا يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ أَوَاحِدَةً صَلَّى أَمْ ثِنْتَيْنِ , فَلْيَجْعَلْهَا وَاحِدَةً، وَإِذَا لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَمْ ثَلَاثًا، فَلْيَجْعَلْهَا ثِنْتَيْنِ، وَإِذَا لَمْ يَدْرِ أَثَلَاثًا صَلَّى أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَجْعَلْهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ يَسْجُدْ إِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، سَجْدَتَيْنِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ اے لڑکے! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ سامنے سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دیئے، انہوں نے پوچھا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس لڑکے سے یہ پوچھ رہا تھا کہ کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اگر تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو؟ تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ایک رکعت شمار کرے، اگر دو اور تین میں شک ہو تو انہیں دو سمجھے، تین اور چار میں شک ہو تو انہیں تین شمار کرے، اس کے بعد نماز سے فراغت پا کر سلام پھیر نے سے قبل سہو کے دو سجدے کر لے۔“