(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا ابن ابي ذئب ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد بن مالك ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه اتاه رهط فسالوه، فاعطاهم إلا رجلا منهم، قال سعد: فقلت: يا رسول الله، اعطيتهم وتركت فلانا، فوالله إني لاراه مؤمنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" او مسلما"، فردد عليه سعد ذلك ثلاثا مؤمنا، ورد عليه النبي صلى الله عليه وسلم:" او مسلما"، فقال النبي صلى الله عليه وسلم في الثالثة:" والله إني لاعطي الرجل العطاء لغيره، احب إلي منه، خوفا ان يكبه الله على وجهه في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ أَتَاهُ رَهْطٌ فَسَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ إِلَّا رَجُلًا مِنْهُمْ، قَالَ سَعْدٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَ فُلَانًا، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْ مُسْلِمًا"، فَرَدَّد عَلَيْهِ سَعْدٌ ذَلِكَ ثَلَاثًا مُؤْمِنًا، وَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْ مُسْلِمًا"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثَّالِثَةِ:" وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ لَغَيْرُهُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَوْفًا أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان نہیں؟“ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، اور انہیں کچھ نہیں دیتا اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔“
حدثني عبد الله، حدثني ابي، قال: قال ابو نعيم لقيت سفيان بمكة، فاول من سالني عنه، قال: كيف شجاع؟ يعني ابا بدر.حَدَثَني عَبْدُ الله، حَدَثَني أبيَّ، قَالَ: قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ لَقِيتُ سُفْيَانَ بِمَكَّةَ، فَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَنِي عَنْهُ، قَالَ: كَيْفَ شُجَاعٌ؟ يَعْنِي أَبَا بَدْرٍ.
ابونعیم کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں میری ملاقات سفیان سے ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ شجاع یعنی ابوبدر کیسے ہیں؟
حكم دارالسلام: هذا ليس بحديث، بل هو أثر عن أبى نعيم أن سفيان وهو الثوري - سأله عن أبى بدر شجاع بن الوليد، وحق هذا الأثر أن يكون بإثر الحديث السالف: (1572)، إذلا معنى لإيراده هنا .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا إبراهيم بن سعد ، ح هاشم بن القاسم , حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن صالح بن كيسان ، قال هاشم في حديثه , قال: حدثني صالح بن كيسان، وقال يزيد، عن صالح، عن الزهري ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن ، عن محمد بن سعد ، عن ابيه ، قال: دخل عمر بن الخطاب على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة من قريش، يسالنه، ويستكثرن رافعات اصواتهن، فلما سمعن صوت عمر انقمعن وسكتن، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا عدوات انفسهن، تهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلن إنك افظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واغلظ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمر، ما لقيك الشيطان سالكا فجا، إلا سلك فجا غير فجك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ح َهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، قَالَ هَاشِمٌ فِي حَدِيثِهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَقَالَ يَزِيدُ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ، يَسْأَلْنَهُ، وَيَسْتَكْثِرْنَ رَافِعَاتٍ أَصْوَاتَهُنَّ، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَ عُمَرَ انْقَمَعْنَ وَسَكَتْنَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ، تَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ إِنَّكَ أَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَغْلَظُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُمَرُ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا، إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے اور خاموش ہوگئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم لوگ اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین دینے سے منع فرما دیا، اور سونے چاندی کی بدلے زمین کو کرایہ پر دینے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن عبدالرحمن بن لبيبة ضعيف ومحمد بن عكرمة مجهول .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن مصعب بن سعد ، عن سعد بن ابي وقاص ، قال: خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب في غزوة تبوك، فقال: يا رسول الله، تخلفني في النساء والصبيان، قال:" اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، غير انه لا نبي بعدي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ، قَالَ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا شعبة ، قال زياد بن مخراق اخبرني , قال: سمعت قيس بن عباية يحدث , عن مولى لسعد ، ح وحدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن زياد بن مخراق ، قال: سمعت قيس بن عباية القيسي يحدث , عن مولى لسعد بن ابي وقاص ، عن ابن لسعد , انه كان يصلي، فكان يقول في دعائه: اللهم إني اسالك الجنة، واسالك من نعيمها وبهجتها، ومن كذا، ومن كذا، ومن كذا، ومن كذا، واعوذ بك من النار، وسلاسلها واغلالها، ومن كذا، ومن كذا، قال: فسكت عنه سعد، فلما صلى، قال له سعد : تعوذت من شر عظيم، وسالت نعيما عظيما , او قال: طويلا، شعبة شك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه سيكون قوم يعتدون في الدعاء، وقرا: ادعوا ربكم تضرعا وخفية إنه لا يحب المعتدين سورة الاعراف آية 55"، قال شعبة: لا ادري قوله ادعوا ربكم تضرعا وخفية سورة الاعراف آية 55، هذا من قول سعد، او قول النبي صلى الله عليه وسلم، وقال له سعد: قل اللهم اسالك الجنة، وما قرب إليها من قول او عمل، واعوذ بك من النار، وما قرب إليها من قول او عمل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَال زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ أَخْبَرَنِي , قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ عَبَايَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ مَوْلًى لِسَعْدٍ ، حَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ عَبَايَةَ الْقَيْسِيَّ يُحَدِّثُ , عَنْ مَوْلًى لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنِ ابْنٍ لِسَعْدٍ , أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي، فَكَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ نَعِيمِهَا وَبَهْجَتِهَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَسَلَاسِلِهَا وَأَغْلَالِهَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ سَعْدٌ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ لَهُ سَعْدٌ : تَعَوَّذْتَ مِنْ شَرٍّ عَظِيمٍ، وَسَأَلْتَ نَعِيمًا عَظِيمًا , أَوْ قَالَ: طَوِيلًا، شُعْبَةُ شَكَّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ، وَقَرَأَ: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ سورة الأعراف آية 55"، قَالَ شُعْبَةُ: لَا أَدْرِي قَوْلُهُ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً سورة الأعراف آية 55، هَذَا مِنْ قَوْلِ سَعْدٍ، أَوْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُ سَعْد: قُلْ اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ.
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں اور فلاں فلاں چیز سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائے گی، اور یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ [الأعراف: 55] »”تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ «اَللّٰهُمَّ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ»”اے اللہ! آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولي سعد .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن مصعب ، عن سعد بن ابي وقاص , انه كان يامر بهؤلاء الخمس، ويحدثهن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم إني اعوذ بك من البخل، واعوذ بك من الجبن، واعوذ بك ان ارد إلى ارذل العمر، واعوذ بك من فتنة الدنيا، واعوذ بك من عذاب القبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُصْعَبٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِهَؤُلَاءِ الْخَمْسِ، ويُحَدِثْهِن عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
مصعب کہتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ»”اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے، اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔