(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس , سمعت عمر رضي الله عنه , يقول: لعبد الرحمن , وطلحة , والزبير , وسعد , نشدتكم بالله الذي تقوم به السماء والارض , وقال سفيان مرة: الذي بإذنه تقوم , اعلمتم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إنا لا نورث، ما تركنا صدقة"؟ قالوا: اللهم نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ , سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ: لعبد الرحمن , وَطَلْحَةَ , وَالزُّبَيْرِ , وَسَعْدٍ , نشدتكم بالله الذي تقوم به السماء والأرض , وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ , أَعَلِمْتُمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3094، م : 1757 بدون ذكر طلحة
عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا، تھوڑی دیر بعد کوئی شخص ان کی خدمت میں ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا، جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی تصویب فرمائی جنہوں نے اسے کھا لیا تھا، اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالت احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھا لیا تھا۔
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا گیا کہ نمازی کس چیز کو سترہ بنائے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کجاوے کے پچھلے حصے کی مانند کسی بھی چیز کو بنا لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز , وعفان , قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن سماك ، عن موسى بن طلحة عن ابيه ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قوم في رؤوس النخل، فقال:" ما يصنع هؤلاء؟" , قالوا: يلقحونه، يجعلون الذكر في الانثى , قال:" ما اظن ذلك يغني شيئا" , فاخبروا بذلك فتركوه، فاخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن كان ينفعهم فليصنعوه، فإني إنما ظننت ظنا، فلا تؤاخذوني بالظن، ولكن إذا اخبرتكم عن الله عز وجل بشيء فخذوه، فإني لن اكذب على الله شيئا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ فِي رُؤُوسِ النَّخْلِ، فَقَالَ:" مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟" , قَالُوا: يُلَقِّحُونَهُ، يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِي الْأُنْثَى , قَالَ:" مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا" , فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ فَتَرَكُوهُ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ فَلْيَصْنَعُوهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا، فَلَا تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِّ، وَلَكِنْ إِذَا أَخْبَرْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْءٍ فَخُذُوهُ، فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ شَيْئًا".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو کھجوروں کے باغات میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟“ لوگوں نے بتایا کہ یہ نر کھجور کو مادہ کھجور میں ملا رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میرا خیال نہیں ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو۔“ ان لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس سال یہ عمل نہیں کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو فرمایا کہ ”اگر انہیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو تو انہیں یہ کام کر لینا چاہئے، میں نے تو صرف ایک گمان اور خیال ظاہر کیا ہے، اس لئے میرے گمان پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، ہاں! البتہ جب میں تمہیں اللہ کے حوالے سے کوئی بات بتاؤں تو تم اس پر عمل کرو، کیونکہ میں اللہ پر کسی صورت جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا مجمع بن يحيى الانصاري ، حدثنا عثمان بن موهب ، عن موسى بن طلحة , عن ابيه ، قال: قلت: يا رسول الله، كيف الصلاة عليك؟ قال:" قل اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، إنك حميد مجيد، وبارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَحْيَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَوْهَبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:" قُلْ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ پر درود کس طرح پڑھا جائے؟ فرمایا: ”یوں کہا کرو: «اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»”اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح درود نازل فرما جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح برکتوں کا نزول فرما جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کیا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللّٰهُ»”اے اللہ! اس چاند کو ہم پر برکت اور ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما، اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لشواهده، وهذا إسناد ضعيف، سليمان ضعيف و بلال لين
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کجاوے کے پچھلے حصے کی مانند کسی بھی چیز کو سترہ بنا لے پھر نماز پڑھے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا إسرائيل ، عن سماك ، انه سمع موسى بن طلحة يحدث , عن ابيه ، قال: مررت مع النبي صلى الله عليه وسلم في نخل المدينة، فراى اقواما في رؤوس النخل يلقحون النخل، فقال:" ما يصنع هؤلاء؟" , قال: ياخذون من الذكر، فيجعلونه في الانثى، يلقحون به , فقال:" ما اظن ذلك يغني شيئا" , فبلغهم، فتركوه، ونزلوا عنها، فلم تحمل تلك السنة شيئا، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنما هو ظن ظننته، إن كان يغني شيئا، فاصنعوا، فإنما انا بشر مثلكم، والظن يخطئ ويصيب، ولكن ما قلت لكم قال الله عز وجل، فلن اكذب على الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَخْلِ الْمَدِينَةِ، فَرَأَى أَقْوَامًا فِي رؤُُُُُُوسِ النَّخْلِ يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ:" مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟" , قَالَ: يَأْخُذُونَ مِنَ الذَّكَرِ، فيجعَلُونهَ فِي الْأُنْثَى، يُلَقِّحُونَ بِهِ , فَقَالَ:" مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا" , فَبَلَغَهُمْ، فَتَرَكُوهُ، وَنَزَلُوا عَنْهَا، فَلَمْ تَحْمِلْ تِلْكَ السَّنَةَ شَيْئًا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هُوَ ظَنٌّ ظَنَنْتُهُ، إِنْ كَانَ يُغْنِي شَيْئًا، فَاصْنَعُوا، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، وَالظَّنُّ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ، وَلَكِنْ مَا قُلْتُ لَكُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ.
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو کھجوروں کے باغات میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟“ لوگوں نے بتایا کہ یہ نر کھجور کو مادہ کھجور میں ملا رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میرا خیال نہیں ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو۔“ ان لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس سال یہ عمل نہیں کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو فرمایا کہ ”اگر انہیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو تو انہیں یہ کام کر لینا چاہئے، میں نے تو صرف ایک گمان اور خیال ظاہر کیا ہے، اس لئے میرے گمان پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، ہاں! البتہ جب میں تمہیں اللہ کے حوالے سے کوئی بات بتاؤں تو تم اس پر عمل کرو، کیونکہ میں اللہ پر کسی صورت جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔“