ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3094، م: 1757 بدون ذكر طلحة .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پہاڑ یا چٹان کے گڑھے کی برائی اور نقصان یہ ہے کہ قبیلہ بجیلہ کا آدمی بھی بلندی سے پستی میں جا پڑتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بكر بن قرواش مجهول، والانقطاع بين العلاء وبين أبي الطفيل .
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن عبد الله بن يزيد ، عن ابي عياش ، قال: سئل سعد عن بيع سلت بشعير، او شيء من هذا، فقال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن تمر برطب، فقال:" تنقص الرطبة إذا يبست؟"، قالوا: نعم، قال:" فلا إذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ ، قَالَ: سُئِلَ سَعْدٌ عَنْ بَيْعِ سُلْتٍ بِشَعِيرٍ، أَوْ شَيْءٍ مِنْ هَذَا، فَقَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَمْرٍ بِرُطَبٍ، فَقَالَ:" تَنْقُصُ الرَّطْبَةُ إِذَا يَبِسَتْ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَلَا إِذَنْ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: کیا بغیر چھلکے کے جو کو عام جو کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کا سوال پوچھا تھا، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان النهدي ، قال: سمعت سعدا ، يقول: سمعت اذناي، ووعى قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم:" انه من ادعى إلى غير ابيه وهو يعلم انه غير ابيه , فالجنة عليه حرام"، قال: فلقيت ابا بكرة، فحدثته، فقال: وانا سمعه اذناي، ووعى قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا ، يَقُولُ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَوَعَى قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ , فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ"، قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: وَأَنَا سَمِعَهُ أُذُنَايَ، وَوَعَى قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا هشام الدستوائي ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن الحضرمي بن لاحق ، عن سعيد بن المسيب ، قال: سالت سعد بن ابي وقاص عن الطيرة، فانتهرني، وقال: من حدثك؟ فكرهت ان احدثه من حدثني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى، ولا طيرة، ولا هام، إن تكن الطيرة في شيء ففي الفرس، والمراة، والدار، وإذا سمعتم بالطاعون بارض، فلا تهبطوا، وإذا كان بارض وانتم بها فلا تفروا منه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنِ الطِّيَرَةِ، فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ فَكَرِهْتُ أَنْ أُحَدِّثَهُ مَنْ حَدَّثَنِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَ، إِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِي شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ، وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ، فَلَا تَهْبِطُوا، وَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَفِرُّوا مِنْهُ".
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بدشگونی کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا: تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان صاحب کا نام لینا مناسب نہ سمجھا جنہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی اور مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکلنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔ اور جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل يعني ابن إبراهيم ، انبانا هشام الدستوائي ، عن عاصم بن بهدلة ، عن مصعب بن سعد ، قال: قال سعد : يا رسول الله، اي الناس اشد بلاء؟ قال:" الانبياء، ثم الامثل، فالامثل، حتى يبتلى العبد على قدر دينه ذاك، فإن كان صلب الدين ابتلي على قدر ذاك، وقال مرة اشتد بلاؤه وإن كان في دينه رقة ابتلي على قدر ذاك، وقال مرة: على حسب دينه، قال: فما تبرح البلايا عن العبد، حتى يمشي في الارض يعني: وما إن عليه من خطيئة"، قال ابي، وقال مرة، عن سعد، قال: قلت: يا رسول الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، حَتَّى يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى قَدْرِ دِينِهِ ذَاكَ، فَإِنْ كَانَ صُلْبَ الدِّينِ ابْتُلِيَ عَلَى قَدْرِ ذَاكَ، وَقَالَ مَرَّةً اشْتَدَّ بَلاَؤُه وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى قَدْرِ ذَاكَ، وَقَالَ مَرَّةً: عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، قَالَ: فَمَا تَبْرَحُ الْبَلَايَا عَنِ الْعَبْدِ، حَتَّى يَمْشِيَ فِي الْأَرْضِ يَعْنِي: وَمَا إِنْ عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ"، قَالَ أَبِي، وَقَالَ مَرَّةً، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا ابو إسحاق الشيباني ، عن محمد بن عبيد الله الثقفي ، عن سعد بن ابي وقاص ، قال: لما كان يوم بدر، قتل اخي عمير، وقتلت سعيد بن العاص، واخذت سيفه، وكان يسمى ذا الكتيفة، فاتيت به نبي الله صلى الله عليه وسلم , قال:" اذهب، فاطرحه في القبض"، قال: فرجعت وبي ما لا يعلمه إلا الله من قتل اخي، واخذ سلبي، قال: فما جاوزت إلا يسيرا، حتى نزلت سورة الانفال، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب فخذ سيفك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قُتِلَ أَخِي عُمَيْرٌ، وَقَتَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ، وَأَخَذْتُ سَيْفَهُ، وَكَانَ يُسَمَّى ذَا الْكَتِيفَةِ، فَأَتَيْتُ بِهِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" اذْهَبْ، فَاطْرَحْهُ فِي الْقَبَضِ"، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَبِي مَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَتْلِ أَخِي، وَأَخْذِ سَلَبِي، قَالَ: فَمَا جَاوَزْتُ إِلَّا يَسِيرًا، حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ الْأَنْفَالِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَخُذْ سَيْفَكَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن میرے بھائی عمیر شہید ہو گئے اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کر دیا اور اس کی تلوار لے لی، جس کا نام «ذَا الْكَتِيفَةِ» تھا، میں وہ تلوار لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر یہ تلوار مال غنیمت میں ڈال دو۔“ مجھے اپنے بھائی کی شہادت کا جو غم تھا اور مال غنیمت کے حصول کا جو خیال تھا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سورہ انفال نازل ہو گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر اپنی تلوار لے لو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا الإسناد ضعيف لأن محمد بن عبيد الله لم يدرك سعداً .
(حديث مرفوع) حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: شكا اهل الكوفة سعدا إلى عمر، فقالوا: لا يحسن يصلي، فذكر ذلك عمر له، فقال:" اما صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقد كنت اصلي بهم، اركد في الاوليين، واحذف في الاخريين"، فقال: ذاك الظن بك ابا إسحاق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لَهُ، فَقَالَ:" أَمَّا صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ، أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ"، فَقَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَبَا إِسْحَاقَ.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ کسی ناگہانی دھوکے یا برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔“