سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”عبداللہ، ابوعبداللہ اور ام عبداللہ کیا خوب گھرانے والے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لا نقطاعه، ابن ابي مليكة لم يدرك طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا نافع بن عمر , وعبد الجبار بن الورد , عن ابن ابي مليكة ، قال: قال طلحة بن عبيد الله : لا احدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، إلا اني سمعته , يقول" إن عمرو بن العاص رضي الله عنه , من صالح قريش" , قال: وزاد عبد الجبار بن ورد، عن ابن ابي مليكة، عن طلحة , قال:" نعم اهل البيت عبد الله، وابو عبد الله، وام عبد الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ , وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْوَرْدِ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ : لَا أُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُهُ , يَقُولُ" إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , مِنْ صَالِحِ قُرَيْشٍ" , قَالَ: وَزَادَ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَرْدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ طَلْحَةَ , قَالَ:" نِعْمَ أَهْلُ الْبَيْتِ عَبْدُ اللَّهِ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَأُمُّ عَبْدِ اللَّهِ.
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے احادیث بیان کرنا میری عادت نہیں ہے، البتہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ ”عمرو بن العاص قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں، اور عبداللہ، ابوعبداللہ اور ام عبداللہ کیا خوب گھرانے والے ہیں۔“
عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا، تھوڑی دیر بعد کوئی شخص ان کی خدمت میں ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا، جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی تصویب فرمائی جنہوں نے اسے کھا لیا تھا، اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالت احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھا لیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط , حدثنا مطرف ، عن عامر ، عن يحيى بن طلحة ، عن ابيه ، قال: راى عمر طلحة بن عبيد الله ثقيلا، فقال: ما لك يا ابا فلان، لعلك ساءتك إمرة ابن عمك يا ابا فلان؟ قال: لا، إلا اني سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا ما منعني ان اساله عنه إلا القدرة عليه حتى مات , سمعته يقول:" إني لاعلم كلمة، لا يقولها عبد عند موته , إلا اشرق لها لونه، ونفس الله عنه كربته" , قال: فقال عمر رضي الله عنه: إني لاعلم ما هي , قال: وما هي؟ قال: تعلم كلمة اعظم من كلمة امر بها عمه عند الموت لا إله إلا الله , قال طلحة: صدقت، هي والله هي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ , حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَى عُمَرُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ثَقِيلًا، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا فُلَانٍ، لَعَلَّكَ سَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ يَا أَبَا فُلَانٍ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا مَا مَنَعَنِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْهُ إِلَّا الْقُدْرَةُ عَلَيْهِ حَتَّى مَاتَ , سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً، لَا يَقُولُهَا عَبْدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ , إِلَّا أَشْرَقَ لَهَا لَوْنُهُ، وَنَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَتَهُ" , قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا هِيَ , قَالَ: وَمَا هِيَ؟ قَالَ: تَعْلَمُ كَلِمَةً أَعْظَمَ مِنْ كَلِمَةٍ أَمَرَ بِهَا عَمَّهُ عِنْدَ الْمَوْتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , قَالَ طَلْحَةُ: صَدَقْتَ، هِيَ وَاللَّهِ هِيَ.
یحییٰ بن طلحہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو پراگندہ حال دیکھا تو پوچھا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: بات یہ نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو اور اللہ اس کی پریشانی دور کرے، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا: وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، یعنی: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ»، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا، واللہ! وہی ایسا کلمہ ہو سکتا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا وكيع ، عن إسماعيل ، قال: قال قيس : رايت طلحة يده شلاء، وقى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: قَالَ قَيْسٌ : رَأَيْتُ طَلْحَةَ يَدُهُ شَلَّاءُ، وَقَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ.
قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس ہاتھ کا دیدار کیا ہے جو شل ہو گیا تھا، یہ وہی مبارک ہاتھ تھا جس کے ذریعے انہوں نے غزوہ احد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنے ہاتھ پر مشرکین کے تیر روکے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن مهدي ، حدثنا صالح بن عمر ، عن مطرف ، عن الشعبي ، عن يحيى بن طلحة بن عبيد الله , عن ابيه , ان عمر رضي الله عنه , رآه كئيبا، فقال: ما لك يا ابا محمد كئيبا، لعله ساءتك إمرة ابن عمك؟ يعني ابا بكر، قال: لا، واثنى على ابي بكر، ولكني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول:" كلمة لا يقولها عبد عند موته إلا فرج الله عنه كربته، واشرق لونه" , فما منعني ان اساله عنها إلا القدرة عليها حتى مات , فقال له عمر رضي الله عنه: إني لاعلمها , فقال له طلحة: وما هي؟ فقال له عمر رضي الله عنه: هل تعلم كلمة هي اعظم من كلمة امر بها عمه لا إله إلا الله؟ فقال طلحة: هي، والله هي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , رَآهُ كَئِيبًا، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ كَئِيبًا، لَعَلَّهُ سَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، قَالَ: لَا، وَأَثْنَى عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" كَلِمَةٌ لَا يَقُولُهَا عَبْدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَتَهُ، وَأَشْرَقَ لَوْنُهُ" , فَمَا مَنَعَنِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْهَا إِلَّا الْقُدْرَةُ عَلَيْهَا حَتَّى مَاتَ , فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي لَأَعْلَمُهَا , فَقَالَ لَهُ طَلْحَةُ: وَمَا هِيَ؟ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ تَعْلَمُ كَلِمَةً هِيَ أَعْظَمَ مِنْ كَلِمَةٍ أَمَرَ بِهَا عَمَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ فَقَالَ طَلْحَةُ: هِيَ، وَاللَّهِ هِيَ.
یحییٰ بن طلحہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو پراگندہ حال دیکھا تو پوچھا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: بات یہ نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو اور اللہ اس کی پریشانیاں دور کرے، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا: وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، یعنی: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ» سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا، واللہ! وہی ایسا کلمہ ہو سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله ، حدثني محمد بن معن الغفاري ، اخبرني داود بن خالد بن دينار , انه مر هو ورجل يقال له: ابو يوسف من بني تيم، على ربيعة بن ابي عبد الرحمن رضي الله عنه , قال: قال له ابو يوسف: إنا لنجد عند غيرك من الحديث ما لا نجده عندك , فقال: اما إن عندي حديثا كثيرا، ولكن ربيعة بن الهدير , قال: وكان يلزم طلحة بن عبيد الله إنه لم يسمع طلحة يحدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا قط غير حديث واحد , قال ربيعة بن ابي عبد الرحمن: قلت له: وما هو؟ قال: قال لي طلحة : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اشرفنا على حرة واقم، قال: فدنونا منها، فإذا قبور بمحنية، فقلنا: يا رسول الله، قبور إخواننا هذه؟ قال:" قبور اصحابنا" , ثم خرجنا حتى إذا جئنا قبور الشهداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذه قبور إخواننا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْغِفَارِيُّ ، أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ دِينَارٍ , أَنَّهُ مَرَّ هُوَ وَرَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو يُوسُفَ مِنْ بَنِي تَيْمٍ، عَلَى رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ لَهُ أَبُو يُوسُفَ: إِنَّا لَنَجِدُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنَ الْحَدِيثِ مَا لَا نَجِدُهُ عِنْدَكَ , فَقَالَ: أَمَا إِنَّ عِنْدِي حَدِيثًا كَثِيرًا، وَلَكِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ الْهُدَيْرِ , قَالَ: وَكَانَ يَلْزَمُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ طَلْحَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا قَطُّ غَيْرَ حَدِيثٍ وَاحِدٍ , قَالَ رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قُلْتُ لَهُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: قَالَ لِي طَلْحَةُ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَشْرَفْنَا عَلَى حَرَّةِ وَاقِمٍ، قَالَ: فَدَنَوْنَا مِنْهَا، فَإِذَا قُبُورٌ بِمَحْنِيَّةٍ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُبُورُ إِخْوَانِنَا هَذِهِ؟ قَالَ:" قُبُورُ أَصْحَابِنَا" , ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّى إِذَا جِئْنَا قُبُورَ الشُّهَدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ قُبُورُ إِخْوَانِنَا".
داؤد بن خالد بن دینار کہتے ہیں کہ ان کا اور بنو تیم کے ایک شخص کا - جس کا نام ابویوسف تھا - ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے پاس سے گذر ہوا، ابویوسف نے ان سے کہا کہ ہمیں آپ کے علاوہ دیگر حضرات کے پاس ایسی احادیث مل جاتی ہیں جو آپ کے پاس نہیں ملتیں؟ انہوں نے فرمایا کہ احادیث تو میرے پاس بھی بہت زیادہ ہیں لیکن میں نے ربیعہ بن ہدیر کو - جو کہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چمٹے رہتے تھے - یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو سوائے ایک حدیث کے کوئی اور حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایک حدیث کون سی ہے؟ تو بقول ربیعہ کے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب ہم حرہ واقم نامی جگہ پر (جو کہ مدینہ منورہ میں ایک ٹیلہ ہے) پہنچے اور اس کے قریب ہوئے تو ہمیں کمان کی طرح خمدار کچھ قبریں دکھائی دیں، ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہمارے اصحاب کی قبریں ہیں“، پھر ہم وہاں سے نکل کر جب شہداء کی قبروں پر پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے بھائیوں کی قبریں یہ ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عمر بن عبيد , عن سماك بن حرب ، عن موسى بن طلحة , عن ابيه ، قال: كنا نصلي والدواب تمر بين ايدينا، فذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" مثل مؤخرة الرحل تكون بين يدي احدكم، ثم لا يضره ما مر عليه" , وقال عمر مرة:" بين يديه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي وَالدَّوَابُّ تَمُرُّ بَيْنَ أَيْدِينَا، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ تَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ أَحَدِكُمْ، ثُمَّ لَا يَضُرُّهُ مَا مَرَّ عَلَيْهِ" , وَقَالَ عُمَرُ مَرَّةً:" بَيْنَ يَدَيْهِ".
موسیٰ بن طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو جانور ہمارے سامنے سے گذرتے رہتے تھے، ہم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اگر تمہارے سامنے کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح کوئی چیز ہو (جو بطور سترہ کے گاڑ لی گئی ہو) تو پھر جو مرضی چیز گذرتی رہے، تمہاری نماز میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة ، قال: نزل رجلان من اهل اليمن على طلحة بن عبيد الله، فقتل احدهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم مكث الآخر بعده سنة، ثم مات على فراشه، فاري طلحة بن عبيد الله ان الذي مات على فراشه دخل الجنة قبل الآخر بحين، فذكر ذلك طلحة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كم مكث بعده؟" , قال: حولا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلى الفا وثمان مئة صلاة، وصام رمضان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: نَزَلَ رَجُلَانِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ عَلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقُتِلَ أَحَدُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً، ثُمَّ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَأُرِيَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ الَّذِي مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْآخَرِ بِحِينٍ، فَذَكَرَ ذَلِكَ طَلْحَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَمْ مَكَثَ بَعْدَهُ؟" , قَالَ: حَوْلًا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى أَلْفًا وَثَمَانِ مِئَةِ صَلَاةٍ، وَصَامَ رَمَضَانَ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ یمن کے دو آدمی سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے یہاں مہمان بنے، ان میں سے ایک صاحب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے، اور دوسرے صاحب ان کے بعد ایک سال مزید زندہ رہے اور بالآخر طبعی موت سے رخصت ہو گئے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ اپنی طبعی موت مرنے والا اپنے دوسرے ساتھی سے کافی عرصہ قبل ہی جنت میں داخل ہو گیا ہے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ خواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”یہ دوسرا آدمی اپنے پہلے ساتھی کے بعد کتنا عرصہ تک زمین پر زندہ رہا؟“ انہوں نے بتایا کہ ایک سال تک، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اس نے ایک ہزار آٹھ سو نمازیں پڑھیں اور ماہ رمضان کے روزے الگ رکھے۔“(آخر ان کا ثواب بھی تو ہوگا)۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، لأن أباسلمة لم يدرك القصة، ولم يسمع من طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا مالك ، عن عمه ، عن ابيه , انه سمع طلحة بن عبيد الله , يقول: جاء اعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال" خمس صلوات في يوم وليلة" , قال: هل علي غيرهن؟ قال:" لا" , وساله عن الصوم، فقال:" صيام رمضان" , قال: هل علي غيره؟ قال:" لا" , قال: وذكر الزكاة، قال: هل علي غيرها؟ قال:" لا" , قال: والله لا ازيد عليهن، ولا انقص منهن , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد افلح إن صدق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ , يَقُولُ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ" خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ" , قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ:" لَا" , وَسَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ:" صِيَامُ رَمَضَانَ" , قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: وَذَكَرَ الزَّكَاةَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ فرمایا: ”دن رات میں پانچ نمازیں“، اس نے پوچھا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ فرمایا: ”نہیں۔“ پھر اس نے روزہ کی بابت پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ ”ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں“، اس نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی روزے فرض ہیں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ پھر زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا اور اس نے پھر یہی پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی چیز فرض ہے؟ فرمایا: ”نہیں۔“ اس پر اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان چیزوں میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کروں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ سچ کہہ رہا ہے اور اس نے اس بات کو سچ کر دکھایا تو یہ کامیاب ہو گیا۔“