سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، ہم ان کے ساتھ ہی تھے فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے؟ جب کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کر دیا جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن سعيد بن خالد بن عبد الله بن قارظ ، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن ازهر، قال: رايت عليا ، وعثمان يصليان يوم الفطر والاضحى، ثم ينصرفان يذكران الناس، قال: وسمعتهما يقولان:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام هذين اليومين". قال: قال: وسمعت عليا ، يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبقى من نسككم عندكم شيء بعد ثلاث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا ، وَعُثْمَانَ يصليان يوم الفطر والأضحى، ثم ينصرفان يذكران الناس، قَالَ: وَسَمِعْتُهُمَا يَقُولَانِ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ". قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْقَى مِنْ نُسُكِكُمْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ بَعْدَ ثَلَاثٍ".
ابوعبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا حصين ، عن عمرو بن جاوان ، قال: قال الاحنف : انطلقنا حجاجا، فمررنا بالمدينة، فبينما نحن في منزلنا، إذ جاءنا آت، فقال: الناس من فزع في المسجد، فانطلقت انا وصاحبي، فإذا الناس مجتمعون على نفر في المسجد، قال: فتخللتهم حتى قمت عليهم، فإذا علي بن ابي طالب، والزبير، وطلحة، وسعد بن ابي وقاص، قال: فلم يكن ذلك باسرع من ان جاء عثمان يمشي، فقال: اههنا علي ؟ قالوا: نعم، قال: اههنا الزبير ؟ قالوا: نعم، قال: اههنا طلحة ؟ قالوا: نعم، قال: اههنا سعد ؟ قالوا: نعم، قال: انشدكم بالله الذي لا إله إلا هو، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من يبتاع مربد بني فلان غفر الله له"، فابتعته، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني قد ابتعته، فقال:" اجعله في مسجدنا واجره لك"؟ قالوا: نعم. قال: انشدكم بالله الذي لا إله إلا هو، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من يبتاع بئر رومة؟" فابتعتها بكذا وكذا، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت إني قد ابتعتها، يعني بئر رومة، فقال:" اجعلها سقاية للمسلمين، واجرها لك"؟ قالوا:" نعم. قال: انشدكم بالله الذي لا إله إلا هو، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر في وجوه القوم يوم جيش العسرة، فقال:" من يجهز هؤلاء غفر الله له"، فجهزتهم، حتى ما يفقدون خطاما ولا عقالا؟ قالوا: اللهم نعم، قال: اللهم اشهد، اللهم اشهد، اللهم اشهد، ثم انصرف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ جَاوَانَ ، قَالَ: قَالَ الْأَحْنَفُ : انْطَلَقْنَا حُجَّاجًا، فَمَرَرْنَا بِالْمَدِينَةِ، فَبَيْنَمَا نَحْنُ فِي مَنْزِلِنَا، إِذْ جَاءَنَا آتٍ، فَقَالَ: النَّاسُ مِنْ فَزَعٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَصَاحِبِي، فَإِذَا النَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَى نَفَرٍ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَتَخَلَّلْتُهُمْ حَتَّى قُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: فَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ بِأَسْرَعَ مِنْ أَنْ جَاءَ عُثْمَانُ يَمْشِي، فَقَالَ: أَهَهُنَا عَلِيٌّ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَهَهُنَا الزُّبَيْرُ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَهَهُنَا طَلْحَةُ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَهَهُنَا سَعْدٌ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِي فُلَانٍ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ"، فَابْتَعْتُهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ ابْتَعْتُهُ، فَقَالَ:" اجْعَلْهُ فِي مَسْجِدِنَا وَأَجْرُهُ لَكَ"؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يَبْتَاعُ بِئْرَ رُومَةَ؟" فَابْتَعْتُهَا بِكَذَا وَكَذَا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ إِنِّي قَدْ ابْتَعْتُهَا، يَعْنِي بِئْرَ رُومَةَ، فَقَالَ:" اجْعَلْهَا سِقَايَةً لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَجْرُهَا لَكَ"؟ قَالُوا:" نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَالَ:" مَنْ يُجَهِّزُ هَؤُلَاءِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ"، فَجَهَّزْتُهُمْ، حَتَّى مَا يَفْقِدُونَ خِطَامًا وَلَا عِقَالًا؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حج کے ارادے سے روانہ ہوئے، مدینہ منورہ سے گزر ہوا، ابھی ہم اپنے پڑاؤ ہی میں تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ مسجد نبوی میں لوگ بڑے گھبرائے ہوئے نظر آ رہے ہیں، میں اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں نے مل کر مسجد میں موجود چند لوگوں پر ہجوم کیا ہوا ہے، میں ان کے درمیان سے گزرتا ہوا وہاں جا کر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ وہاں سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کھڑے ہیں، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی دھیرے دھیرے چلتے ہوئے آ گئے۔ انہوں نے آ کر پوچھا کہ یہاں علی رضی اللہ عنہ ہیں؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! پھر باری باری مذکورہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کا نام لے کر ان کی موجودگی کے بارے میں پوچھا اور لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، اس کے بعد انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا جو شخص فلاں قبیلے کے اونٹوں کا باڑہ خرید کر دے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف فرما دے گا، میں نے اسے خرید لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ خرید لینے کے بارے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ہماری مسجد میں شامل کر دو، تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، بیر رومہ کون خریدے گا، میں نے اسے اچھی خاصی رقم میں خریدا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر بتایا کہ میں نے اسے خرید لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے پینے کے لئے وقف کر دو، تمہیں اس کا اجر ملے گا؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش العسرۃ (غزوہ تبوک) کے موقع پر لوگوں کے چہرے دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو شخص ان کے لئے سامان جہاد کا انتظام کرے گا، اللہ اسے بخش دے گا، میں نے ان کے لئے اتنا سامان مہیا کیا کہ ایک لگام اور ایک رسی بھی کم نہ ہوئی؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تصدیق کی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہ، یہ کہہ کر وہ واپس چلے گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، عمرو بن جاوان لم يرو عنه غير حصين، ولم يذكره أحد في الثقات غير ابن حبان
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني سليمان بن عتيق ، عن عبد الله بن بابيه ، عن بعض بني يعلى بن امية، قال: قال يعلى : طفت مع عثمان ، فاستلمنا الركن، قال يعلى: فكنت مما يلي البيت، فلما بلغنا الركن الغربي الذي يلي الاسود، جررت بيده ليستلم، فقال: ما شانك؟ فقلت: الا تستلم؟ قال: فقال:" الم تطف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: بلى، قال ارايته يستلم هذين الركنين الغربيين؟ قلت: لا، قال افليس لك فيه اسوة حسنة؟ قلت: بلى، قال: فانفذ عنك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ بَعْضِ بَنِي يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قَالَ يَعْلَى : طُفْتُ مَعَ عُثْمَانَ ، فَاسْتَلَمْنَا الرُّكْنَ، قَالَ يَعْلَى: فَكُنْتُ مِمَّا يَلِي الْبَيْتَ، فَلَمَّا بَلَغْنَا الرُّكْنَ الْغَرْبِيَّ الَّذِي يَلِي الْأَسْوَدَ، جَرَرْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَلِمُ؟ قَالَ: فَقَالَ:" أَلَمْ تَطُفْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ أَرَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْغَرْبِيَّيْنِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ أَفَلَيْسَ لَكَ فِيهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، فإن بعض بني يعلى بن أمية مجهول لا يعرف
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن المقرئ ، حدثنا حيوة ، انبانا ابو عقيل ، انه سمع الحارث مولى عثمان، يقول: جلس عثمان يوما وجلسنا معه، فجاءه المؤذن، فدعا بماء في إناء، اظنه سيكون فيه مد، فتوضا، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا وضوئي هذا، ثم قال:" ومن توضا وضوئي، ثم قام فصلى صلاة الظهر، غفر له ما كان بينها وبين الصبح، ثم صلى العصر، غفر له ما بينها وبين صلاة الظهر، ثم صلى المغرب، غفر له ما بينها وبين صلاة العصر، ثم صلى العشاء، غفر له ما بينها وبين صلاة المغرب، ثم لعله ان يبيت يتمرغ ليلته، ثم إن قام فتوضا وصلى الصبح، غفر له ما بينها وبين صلاة العشاء، وهن الحسنات يذهبن السيئات"، قالوا: هذه الحسنات، فما الباقيات يا عثمان؟ قال: هن لا إله إلا الله، وسبحان الله، والحمد لله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَنْبَأَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ الْحَارِثَ مَوْلَى عُثْمَانَ، يَقُولُ: جَلَسَ عُثْمَانُ يَوْمًا وَجَلَسْنَا مَعَهُ، فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ، أَظُنُّهُ سَيَكُونُ فِيهِ مُدٌّ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ:" وَمَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ، غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصُّبْحِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، ثُمَّ لَعَلَّهُ أَنْ يَبِيتَ يَتَمَرَّغُ لَيْلَتَهُ، ثُمَّ إِنْ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الصُّبْحَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهُنَّ الْحَسَنَاتُ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ"، قَالُوا: هَذِهِ الْحَسَنَاتُ، فَمَا الْبَاقِيَاتُ يَا عُثْمَانُ؟ قَالَ: هُنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.
حارث جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے، ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے، اتنی دیر میں مؤذن آ گیا، انہوں نے ایک برتن میں پانی منگوایا، میرا خیال ہے کہ اس میں ایک مد کے برابر پانی ہو گا، انہوں نے وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز پڑھے تو فجر اور ظہر کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر عصر کی نماز پڑھنے پر ظہر اور عصر کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر مغرب کی نماز پڑھنے پر عصر اور مغرب کے درمیان اور پھر عشاء کی نماز پڑھنے مغرب اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہے اور کھڑا ہو کر وضو کر کے فجر کی نماز پڑھ لے تو فجر اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور یہ وہی نیکیاں ہیں جو گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! یہ تو حسنات ہیں باقیات (جن کا تذکرہ قرآن میں بھی آتا ہے وہ) کیا چیز ہیں؟ فرمایا وہ یہ کلمات ہیں۔ «لا اله الا الله و سبحان الله والحمدلله والله اكبر ولا حول ولا قوة الا بالله» ۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثني عقيل ، عن ابن شهاب ، عن يحيى بن سعيد بن العاص ، ان سعيد بن العاص اخبره، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وعثمان حدثاه: ان ابا بكر استاذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو مضطجع على فراشه، لابس مرط عائشة، فاذن لابي بكر وهو كذلك، فقضى إليه حاجته، ثم انصرف، ثم استاذن عمر، فاذن له وهو على تلك الحال، فقضى إليه حاجته، ثم انصرف، قال عثمان: ثم استاذنت عليه، فجلس، وقال لعائشة:" اجمعي عليك ثيابك"، فقضى إلي حاجتي، ثم انصرفت، قالت عائشة: يا رسول الله، ما لي لم ارك فزعت لابي بكر، وعمر، كما فزعت لعثمان؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن عثمان رجل حيي، وإني خشيت إن اذنت له على تلك الحال، ان لا يبلغ إلي في حاجته"، وقال الليث: وقال جماعة الناس: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لعائشة:" الا استحيي ممن يستحيي منه الملائكة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعُثْمَانَ حَدَّثَاهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ، لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ، فَأَذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ عُثْمَانُ: ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، وَقَالَ لِعَائِشَةَ:" اجْمَعِي عَلَيْكِ ثِيَابَكِ"، فَقَضَى إِلَيَّ حَاجَتِي، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي لَمْ أَرَكَ فَزِعْتَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، كَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ، وَإِنِّي خَشِيتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِي حَاجَتِهِ"، وقَالَ اللَّيْثُ: وَقَالَ جَمَاعَةُ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَائِشَةَ:" أَلَا أَسْتَحْيِي مِمَّنْ يَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دونوں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اجازت چاہی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اوڑھ رکھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور خود اسی طرح لیٹے رہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کام پورا کر کے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر اجازت طلب کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اجازت دے دی لیکن خود اسی کیفیت پر رہے، وہ بھی اپنا کام پورا کر کے چلے گئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد میں نے آ کر اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اپنے کپڑے سمیٹ لو، تھوڑی دیر میں میں بھی اپنا کام کر کے چلا گیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر آپ نے جو اہتمام کیا، وہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے آنے پر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان میں شرم و حیاء کا مادہ بہت زیادہ ہے، مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے انہیں اندر یوں ہی بلا لیا اور میں اپنی حالت پر ہی رہا تو وہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں اسے پورا نہ کر سکیں گے اور بعض روایات کے مطابق یہ فرمایا کہ میں اس شخص سے حیاء کیوں نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز کے لئے روانہ ہو اور اسے ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، ان کی زوجہ محترمہ اپنے قریبی رشتہ دار محمد بن جعفر کے پاس چلی گئیں، محمد نے رات انہی کے ساتھ گزاری، صبح ہوئی تو محمد کے جسم سے خوشبو کی مہک پھوٹ رہی تھی اور عصفر سے رنگا ہوا لحاف ان کے اوپر تھا، کوچ کرنے سے پہلے ہی لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حال میں دیکھا تو انہیں ڈانٹا اور سخت سست کہا: اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود بھی تم نے عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہن رکھا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی سن لیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کیا تھا اور نہ ہی آپ کو انہوں نے تو مجھے منع کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبيد الله بن عبدالرحمن وجهالة عبيدالله بن عبدالله
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بتاؤ! اگر تمہارے گھر کے صحن میں ایک نہر بہہ رہی ہو اور تم روزانہ اس میں سے پانچ مرتبہ غسل کرتے ہو تو کیا تمہارے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی؟ لوگوں نے کہا: بالکل نہیں! فرمایا: ”پانچوں نمازیں گناہوں کو اسی طرح ختم کر دیتی ہیں جیسے پانی میل کچیل کو ختم کر دیتا ہے۔“