(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا ارطاة يعني ابن المنذر ، اخبرني ابو عون الانصاري ، ان عثمان بن عفان، قال لابن مسعود: هل انت منته عما بلغني عنك؟ فاعتذر بعض العذر، فقال عثمان : ويحك، إني قد سمعت وحفظت وليس كما سمعت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" سيقتل امير وينتزي منتز"، وإني انا المقتول، وليس عمر، إنما قتل عمر واحد، وإنه يجتمع علي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْذِرِ ، أَخْبَرَنِي أَبُو عَوْنٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ: هَلْ أَنْتَ مُنْتَهٍ عَمَّا بَلَغَنِي عَنْكَ؟ فَاعْتَذَرَ بَعْضَ الْعُذْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ : وَيْحَكَ، إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ وَحَفِظْتُ وَلَيْسَ كَمَا سَمِعْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" سَيُقْتَلُ أَمِيرٌ وَيَنْتَزِي مُنْتَزٍ"، وَإِنِّي أَنَا الْمَقْتُولُ، وَلَيْسَ عُمَرَ، إِنَّمَا قَتَلَ عُمَرَ وَاحِدٌ، وَإِنَّهُ يُجْتَمَعُ عَلَيَّ.
ابوعون انصاری کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ آپ کے حوالے سے مجھے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، آپ ان سے رک جائیے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے کچھ عذر پیش کئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افسوس! میں نے اس بات کو سنا بھی ہے اور محفوظ بھی کیا ہے خواہ آپ نے نہ سنا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ایک حکمران قتل کیا جائے گا اور شر پھیلانے والے اس میں جلد بازی کریں گے، یاد رکھو! وہ مقتول ہونے والا امیر میں ہی ہوں، اس سے مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہیں ہیں، کیونکہ انہیں تو صرف ایک آدمی نے شہید کیا تھا، جب کہ مجھ پر یہ سب مل کر حملہ کرنے والے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو عون الأنصاري لم يوثقه غير ابن حبان وروايته عن عثمان مرسلة
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا بشر بن شعيب ، حدثني ابي ، عن الزهري ، حدثني عروة بن الزبير ، ان عبيد الله بن عدي بن الخيار اخبره، ان عثمان بن عفان ، قال له: ابن اخي، ادركت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فقلت له: لا، ولكن خلص إلي من علمه، واليقين ما يخلص إلى العذراء في سترها، قال: فتشهد، ثم قال:" اما بعد، فإن الله عز وجل بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، فكنت ممن استجاب لله ولرسوله، وآمن بما بعث به محمد صلى الله عليه وسلم، ثم هاجرت الهجرتين كما قلت، ونلت صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوالله ما عصيته ولا غششته، حتى توفاه الله عز وجل".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، قَالَ لَهُ: ابْنَ أَخِي، أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، وَلَكِنْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ، وَالْيَقِينِ مَا يَخْلُصُ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا، قَالَ: فَتَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، وَآمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ كَمَا قُلْتُ، وَنِلْتُ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبیداللہ بن عدی بن الخیار کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا بھتیجے! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں! البتہ ان کے حوالے سے خالص معلومات اور ایسا یقین ضرور میرے پاس ہیں جو کنواری دوشیزہ کو اپنے پردے میں ہوتا ہے، اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حمد و ثناء اور اقرار شہادتین کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں بھی تھا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لانے والوں میں، میں بھی تھا، پھر میں نے حبشہ کی طرف دونوں مرتبہ ہجرت کی، مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پر بیعت بھی کی ہے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی ان کی نافرمانی کی اور نہ ہی دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عياش ، حدثنا الوليد بن مسلم ، قال: واخبرني الاوزاعي ، عن محمد بن عبد الملك بن مروان ، انه حدثه عن المغيرة بن شعبة : انه دخل على عثمان وهو محصور، فقال: إنك إمام العامة، وقد نزل بك ما ترى، وإني اعرض عليك خصالا ثلاثا، اختر إحداهن: إما ان تخرج فتقاتلهم، فإن معك عددا وقوة، وانت على الحق، وهم على الباطل، وإما ان نخرق لك بابا سوى الباب الذي هم عليه، فتقعد على رواحلك، فتلحق بمكة، فإنهم لن يستحلوك وانت بها، وإما ان تلحق بالشام، فإنهم اهل الشام، وفيهم معاوية، فقال عثمان : اما ان اخرج فاقاتل، فلن اكون اول من خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في امته بسفك الدماء، واما ان اخرج إلى مكة، فإنهم لن يستحلوني بها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" يلحد رجل من قريش بمكة، يكون عليه نصف عذاب العالم"، فلن اكون انا إياه، واما ان الحق بالشام فإنهم اهل الشام، وفيهم معاوية، فلن افارق دار هجرتي، ومجاورة رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ : أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَزَلَ بِكَ مَا تَرَى، وَإِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْكَ خِصَالًا ثَلَاثًا، اخْتَرْ إِحْدَاهُنَّ: إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَهُمْ، فَإِنَّ مَعَكَ عَدَدًا وَقُوَّةً، وَأَنْتَ عَلَى الْحَقِّ، وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ، وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَكَ بَابًا سِوَى الْبَابِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ، فَتَقْعُدَ عَلَى رَوَاحِلِكَ، فَتَلْحَقَ بِمَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّوكَ وَأَنْتَ بِهَا، وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ عُثْمَانُ : أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ، فَلَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ بِسَفْكِ الدِّمَاءِ، وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلَى مَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّونِي بِهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ، يَكُونُ عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ"، فَلَنْ أَكُونَ أَنَا إِيَّاهُ، وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ هِجْرَتِي، وَمُجَاوَرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے، ان دنوں باغیوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آکر عرض کیا کہ آپ مسلمانوں کے عمومی حکمران ہیں، آپ پر جو پریشانیاں آ رہی ہیں، وہ بھی نگاہوں کے سامنے ہیں، میں آپ کے سامنے تین درخواستیں رکھتا ہوں، آپ کسی ایک کو اختیار کر لیجئے، یا تو آپ باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کریں، آپ کے پاس افراد بھی ہیں، طاقت بھی ہے اور آپ برحق بھی ہیں اور یہ لوگ باطل پر ہیں، یا جس دروازے پر یہ لوگ کھڑے ہیں، آپ اسے چھوڑ کر اپنے گھر کی دیوار توڑ کر کوئی دوسرا دروازہ نکلوائیں، سواری پر بیٹھیں اور مکہ مکرمہ چلے جائیں، جب آپ وہاں ہوں گے تو یہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، یا پھر آپ شام چلے جائیے کیونکہ وہاں اہل شام کے علاوہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ میں باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کروں، تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سب سے پہلا وہ آدمی ہرگز نہیں بنوں گا جو امت میں خونریزی کرے، رہی یہ بات کہ میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں تو یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کا ایک آدمی مکہ مکرمہ میں الحاد پھیلائے گا، اس پر اہل دنیا کو ہونے والے عذاب کا نصف عذاب دیا جائے گا، میں وہ آدمی نہیں بننا چاہتا اور جہاں تک شام جانے والی بات ہے کہ وہاں اہل شام کے علاوہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں تو میں دارالہجرۃ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، محمد بن عبدالملك لم يثبت سماعه من المغيرة
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز کے لئے روانہ ہو اور اسے ادا کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم ، عن المسيب ، عن موسى بن طلحة ، عن حمران ، قال: كان عثمان يغتسل كل يوم مرة من منذ اسلم، فوضعت وضوءا له ذات يوم للصلاة، فلما توضا، قال: إني اردت ان احدثكم بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: بدا لي ان لا احدثكموه، فقال الحكم بن ابي العاص: يا امير المؤمنين، إن كان خيرا فناخذ به، او شرا فنتقيه، قال: فقال: فإني محدثكم به: توضا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الوضوء، ثم قال:" من توضا هذا الوضوء، فاحسن الوضوء، ثم قام إلى الصلاة، فاتم ركوعها وسجودها، كفرت عنه ما بينها وبين الصلاة الاخرى، ما لم يصب مقتلة" يعني: كبيرة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ حُمْرَانَ ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ يَغْتَسِلُ كُلَّ يَوْمٍ مَرَّةً مِنْ مُنْذُ أَسْلَمَ، فَوَضَعْتُ وَضُوءًا لَهُ ذَاتَ يَوْمٍ لِلصَّلَاةِ، فَلَمَّا تَوَضَّأَ، قَالَ: إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بَدَا لِي أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمُوهُ، فَقَالَ الْحَكَمُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنْ كَانَ خَيْرًا فَنَأْخُذُ بِهِ، أَوْ شَرًّا فَنَتَّقِيهِ، قَالَ: فَقَالَ: فَإِنِّي مُحَدِّثُكُمْ بِهِ: تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ هَذَا الْوُضُوءَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَتَمَّ رُكُوعَهَا وَسُجُودَهَا، كَفَّرَتْ عَنْهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الْأُخْرَى، مَا لَمْ يُصِبْ مَقْتَلَةً" يَعْنِي: كَبِيرَةً.
حمران کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب سے اسلام قبول کیا تھا، ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ نہایا کرتے تھے، ایک دن نماز کے لئے میں نے وضو کا پانی رکھا، جب وہ وضو کر چکے تو فرمانے لگے کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کرنا چاہتا تھا، پھر میں نے سوچا کہ نہ بیان کروں، یہ سن کر حکم بن ابی العاص نے کہا کہ امیر المؤمنین! بیان کر دیں، اگر خیر کی بات ہو گی تو ہم بھی اس پر عمل کر لیں گے اور اگر شر کی نشاندہی ہو گی، تو ہم بھی اس سے بچ جائیں گے، فرمایا: میں تم سے یہ حدیث بیان کرنے لگا تھا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا اور فرمایا: ”جو شخص اس طرح وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر نماز کے لئے کھڑا ہو اور رکوع و سجود کو اچھی طرح مکمل کرے تو یہ وضو اگلی نماز تک اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، بشرطیکہ کسی گناہ کبیرہ کا ارتکا ب نہ کرے۔“
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا، جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، عطاء بن فروخ روى عنه أثنان، ولم يوثقة غير ابن حبان، وذكر على بن المديني فى العلل أنه لم يلق عثمان
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن إبراهيم بن المهاجر ، عن عكرمة بن خالد ، حدثني رجل من اهل المدينة: ان المؤذن اذن لصلاة العصر، قال: فدعا عثمان بطهور فتطهر، قال: ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من تطهر كما امر، وصلى كما امر، كفرت عنه ذنوبه"، فاستشهد على ذلك اربعة من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فشهدوا له بذلك على النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ: أَنَّ الْمُؤَذِّنَ أَذَّنَ لِصَلَاةِ الْعَصْرِ، قَالَ: فَدَعَا عُثْمَانُ بِطَهُورٍ فَتَطَهَّرَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَطَهَّرَ كَمَا أُمِرَ، وَصَلَّى كَمَا أُمِرَ، كُفِّرَتْ عَنْهُ ذُنُوبُهُ"، فَاسْتَشْهَدَ عَلَى ذَلِكَ أَرْبَعَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَشَهِدُوا لَهُ بِذَلِكَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ایک مرتبہ جب مؤذن نے عصر کی اذان دی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا، وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق وضو کرے، وہ اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اس کے بعد انہوں نے چار صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس پر گواہی لی اور چاروں نے اس بات کی گواہی دی کہ واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وله شاهد من حديث أبى أيوب الآتي، برقم:23595، وهذا إسناد ضعيف ، إبراهيم بن المهاجر فيه لين، والرجل من أهل المدينة مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا ابن الاشجعي ، حدثنا ابي ، عن سفيان ، عن سالم ابي النضر ، عن بسر بن سعيد ، قال: اتى عثمان المقاعد، فدعا بوضوء،" فتمضمض واستنشق، ثم غسل وجهه ثلاثا، ويديه ثلاثا ثلاثا، ثم مسح براسه ورجليه ثلاثا ثلاثا، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم هكذا يتوضا، يا هؤلاء: اكذاك؟ قالوا: نعم، لنفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عنده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ الْأَشْجَعِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَتَى عُثْمَانُ الْمَقَاعِدَ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ،" فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا يَتَوَضَّأُ، يَا هَؤُلَاءِ: أَكَذَاكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ".
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنچوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے، وضو کا پانی منگوایا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا اور تین تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، پھر سر اور پاؤں کا تین تین مرتبہ مسح کیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم جو وہاں موجود تھے، ان سے فرمایا: کیا ایسا ہی ہے؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن الوليد ، حدثنا سفيان ، حدثني سالم ابو النضر ، عن بسر بن سعيد ، عن عثمان بن عفان : انه دعا بماء فتوضا عند المقاعد،" فتوضا ثلاثا ثلاثا، ثم قال لاصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل رايتم رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل هذا؟ قالوا: نعم"، قال ابي: هذا العدني كان بمكة مستملي ابن عيينة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ : أَنَّهُ دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ عِنْدَ الْمَقَاعِدِ،" فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ رَأَيْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ"، قَالَ أَبِي: هَذَا الْعَدَنِيُّ كَانَ بِمَكَّةَ مُسْتَمْلِيَ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنچوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے، وضو کا پانی منگوایا اور تمام اعضاء کو تین تین مرتبہ دھویا اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم جو وہاں موجود تھے، ان سے فرمایا: کیا ایسا ہی ہے؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔