سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دھوکہ باز، کوئی بخیل، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی بداخلاق جنت میں داخل نہ ہو گا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص بجائے گا وہ غلام ہو گا، بشرطیکہ وہ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، قال: حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن ابي التياح ، عن المغيرة بن سبيع ، عن عمرو بن حريث : ان ابا بكر الصديق افاق من مرضة له، فخرج إلى الناس، فاعتذر بشيء، وقال: ما اردنا إلا الخير، ثم قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ان الدجال يخرج من ارض بالمشرق يقال لها خراسان، يتبعه اقوام كان وجوههم المجان المطرقة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ : أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ أَفَاقَ مِنْ مَرْضَةٍ لَهُ، فَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ، فَاعْتَذَرَ بِشَيْءٍ، وَقَالَ: مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ، يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ".
عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کچھ بیمار ہو گئے، جب صحت یاب ہوئے تو لوگوں سے ملنے باہر تشریف لائے لوگوں سے معذرت کی اور فرمایا ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں، پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ دجال ایک مشرقی علاقے سے خروج کرے گا جس کا نام ”خراسان“ ہو گا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمانوں کی طرح ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، قال: حدثنا شعبة ، عن يزيد بن خمير ، قال: سمعت سليم بن عامر رجلا من اهل حمص، وكان قد ادرك اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال مرة: قال: سمعت اوسط البجلي ، عن ابي بكر الصديق ، قال: سمعته يخطب الناس، وقال مرة: حين استخلف، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام عام الاول مقامي هذا، وبكى ابو بكر، فقال:" اسال الله العفو والعافية، فإن الناس لم يعطوا بعد اليقين شيئا خيرا من العافية، وعليكم بالصدق، فإنه في الجنة، وإياكم والكذب، فإنه مع الفجور، وهما في النار، ولا تقاطعوا، ولا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا إخوانا كما امركم الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ حِمْصَ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسَطَ الْبَجَلِيَّ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَخْطُبُ النَّاسَ، وَقَالَ مَرَّةً: حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَامَ الْأَوَّلِ مَقَامِي هَذَا، وَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ، فَإِنَّ النَّاسَ لَمْ يُعْطَوْا بَعْدَ الْيَقِينِ شَيْئًا خَيْرًا مِنَ الْعَافِيَةِ، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّهُ فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ، وَهُمَا فِي النَّارِ، وَلَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا إِخْوَانًا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
اوسط کہتے ہیں کہ خلافت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا: میں اللہ سے درگزر اور عافیت کی درخواست کرتا ہوں، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی جنت میں ہو گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرات شیخین عنہما نے انہیں یہ خوشخبری دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح نازل ہوا ہے، اسی طرح اس کی تلاوت پر مضبوطی سے جما رہے، اسے چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ابن ام عبد یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت پر کرے۔“
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس چیز کی بڑی تمنا تھی کہ کاش! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے یہ دریافت کر لیتا کہ شیطان ہمارے دلوں میں جو وساوس اور خیالات ڈالتا ہے، ان سے ہمیں کیا چیز بچا سکتی ہے؟ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکا ہوں، جس کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دیا تھا کہ تم وہی کلمہ توحید کہتے رہو جو میں نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کر دیا تھا، اس کلمہ کی کثرت ہی تمہیں ان وساوس سے نجات دلا دے گی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، محمد بن جبير بن مطعم لم يسمع من عثمان، وأبو الحويرث مختلف فيه
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن يونس ، عن الحسن : ان ابا بكر ، خطب الناس، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس، إن الناس لم يعطوا في الدنيا خيرا من اليقين والمعافاة، فسلوهما الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ، خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: َقالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ النَّاسَ لَمْ يُعْطَوْا فِي الدُّنْيَا خَيْرًا مِنَ الْيَقِينِ وَالْمُعَافَاةِ، فَسَلُوهُمَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگو! انسان کو دنیا میں ایمان اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے ان دونوں چیزوں کی دعا کرتے رہا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الحسن البصري لم يدرك أبا بكر
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني حسين بن عبد الله ، عن عكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس ، قال: لما ارادوا ان يحفروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان ابو عبيدة بن الجراح يضرح كحفر اهل مكة، وكان ابو طلحة زيد بن سهل يحفر لاهل المدينة فكان يلحد، فدعا العباس رجلين، فقال لاحدهما: اذهب إلى ابي عبيدة، وللآخر: اذهب إلى ابي طلحة، اللهم خر لرسولك، قال: فوجد صاحب ابي طلحة ابا طلحة، فجاء به، فلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَحْفِرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ يَضْرَحُ كَحَفْرِ أَهْلِ مَكَّةَ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ زَيْدُ بْنُ سَهْلٍ يَحْفِرُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فَكَانَ يَلْحَدُ، فَدَعَا الْعَبَّاسُ رَجُلَيْنِ، فَقَالَ لِأَحَدِهِمَا: اذْهَبْ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ، وَلِلْآخَرِ: اذْهَبْ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ، اللَّهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ، قَالَ: فَوَجَدَ صَاحِبُ أَبِي طَلْحَةَ أَبَا طَلْحَةَ، فَجَاءَ بِهِ، فلحد لرسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب قبر مبارک کی کھدوائی کا ارادہ کیا اور معلوم ہوا کہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ جن کا اصل نام زید بن سہل تھا اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور دوسرے کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس اور دعا کی کہ اے اللہ! اپنے پیغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرما لے، چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانے والے آدمی کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آ گیا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف حسين بن عبد الله
سیدنا عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے چند دن بعد عصر کی نماز پڑھ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی سے نکلا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک جانب تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا جو اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے میرے باپ قربان ہوں، یہ تو پورا پورا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہے علی کے مشابہہ تھوڑی ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔