حدثنا عبد الرزاق ، انبانا ابن جريج ، اخبرني عبد الله بن ابي مليكة ، قال: توفيت ابنة لعثمان بن عفان بمكة، فحضرها ابن عمر، وابن عباس، وإني لجالس بينهما، فقال ابن عمر لعمرو بن عثمان وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه"... فذكر نحو حديث إسماعيل، عن ايوب، عن ابن ابي مليكة.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ، فَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"... فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.
عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی فوت ہو گئی، اس کے جنازے میں سیدنا ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں شریک ہوئے، جبکہ میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عمرو بن عثمان سے کہا کہ تم ان لوگوں کو رونے سے کیوں نہیں روکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میت پر اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : كنت في ركب اسير في غزاة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحلفت، فقلت: لا وابي، فهتف بي رجل من خلفي:" لا تحلفوا بآبائكم"، فالتفت، فإذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَلَفْتُ، فَقُلْتُ: لَا وَأَبِي، فَهَتَفَ بِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا: «لا وابي» تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م: 1646
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن ميسر ابو سعد الصاغاني ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: كان عمر يحلف على ايمان ثلاث، يقول: والله ما احد احق بهذا المال من احد، وما انا باحق به من احد، والله ما من المسلمين احد إلا وله في هذا المال نصيب إلا عبدا مملوكا، ولكنا على منازلنا من كتاب الله تعالى، وقسمنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالرجل وبلاؤه في الإسلام، والرجل وقدمه في الإسلام، والرجل وغناؤه في الإسلام، والرجل وحاجته، ووالله لئن بقيت لهم، لياتين الراعي بجبل صنعاء حظه من هذا المال وهو يرعى مكانه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ أَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يَحْلِفُ عَلَى أَيْمَانٍ ثَلَاثٍ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَحَدٌ أَحَقَّ بِهَذَا الْمَالِ مِنْ أَحَدٍ، وَمَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ، وَاللَّهِ مَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَحَدٌ إِلَّا وَلَهُ فِي هَذَا الْمَالِ نَصِيبٌ إِلَّا عَبْدًا مَمْلُوكًا، وَلَكِنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، وَقَسْمِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَقَدَمُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَغَنَاؤُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ، وَوَاللَّهِ لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ، لَيَأْتِيَنَّ الرَّاعِيَ بِجَبَلِ صَنْعَاءَ حَظُّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَهُوَ يَرْعَى مَكَانَهُ".
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین باتوں پر قسم کھایا کرتے تھے، وہ فرماتے تھے کہ اللہ کی قسم! اس مال کا ایک کی نسبت دوسرا کوئی شخص زیادہ حقدار نہیں (بلکہ سب برابر مستحق ہیں) اور میں بھی کسی دوسرے کی نسبت زیادہ مستحق نہیں ہوں، اللہ کی قسم! ہر مسلمان کا اس مال میں حق ہے سوائے اس غلام کے جو اپنے آقا کا اب تک مملوک ہے، البتہ ہم کتاب اللہ کے مطابق درجہ بندی کریں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ تقسیم حاصل کریں گے۔ چنانچہ ایک آدمی وہ ہے جس نے اسلام کی خاطر بڑی آزمائشیں برداشت کیں، ایک آدمی وہ ہے جو قدیم الاسلام ہو، ایک آدمی وہ ہے جو اسلام میں رہا اور ایک آدمی وہ ہے جو ضرورت مند رہا، اللہ کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو ایسا ہو کر رہے گا کہ جبل صنعاء سے ایک چرواہا آئے گا اور اس مال سے اپنا حصہ وصول کرے گا اور اپنی جگہ جانور بھی چراتا رہے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد القدوس بن الحجاج ، حدثنا صفوان ، حدثني ابو المخارق زهير بن سالم : ان عمير بن سعد الانصاري كان ولاه عمر حمص... فذكر الحديث، قال عمر يعني لكعب:" إني اسالك عن امر فلا تكتمني، قال: والله لا اكتمك شيئا اعلمه، قال: ما اخوف شيء تخوفه على امة محمد صلى الله عليه وسلم؟ قال: ائمة مضلين، قال عمر : صدقت، قد اسر ذلك إلي واعلمنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْمُخَارِقِ زُهَيْرُ بْنُ سَالِمٍ : أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ وَلَّاهُ عُمَرُ حِمْصَ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ عُمَرُ يَعْنِي لِكَعْبٍ:" إِنِّي أَسْأَلُكَ عَنْ أَمْرٍ فَلَا تَكْتُمْنِي، قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَكْتُمُكَ شَيْئًا أَعْلَمُهُ، قَالَ: مَا أَخْوَفُ شَيْءٍ تَخَوَّفُهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَئِمَّةً مُضِلِّينَ، قَالَ عُمَرُ : صَدَقْتَ، قَدْ أَسَرَّ ذَلِكَ إِلَيَّ وَأَعْلَمَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعید کو حمص کا گورنر مقرر فرما رکھا تھا، ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں، مجھ سے کچھ نہ چھپانا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے جس چیز کا علم ہو گا، اسے نہیں چھپاؤں گا، فرمایا: امت مسلمہ کے حوالے سے تمہیں سب سے زیادہ خطرناک بات کیا معلوم ہوتی ہے؟ عرض کیا: گمراہ کن ائمہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا، مجھے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف زهير بن سالم ولم يسمع من عمر
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : فقال سالم : فسمعت عبد الله بن عمر ، يقول: قال عمر : ارسلوا إلي طبيبا ينظر إلى جرحي هذا، قال: فارسلوا إلى طبيب من العرب، فسقى عمر نبيذا، فشبه النبيذ بالدم حين خرج من الطعنة التي تحت السرة، قال: فدعوت طبيبا آخر من الانصار من بني معاوية، فسقاه لبنا، فخرج اللبن من الطعنة صلدا ابيض، فقال له الطبيب: يا امير المؤمنين، اعهد، فقال عمر: صدقني اخو بني معاوية، ولو قلت غير ذلك كذبتك، قال: فبكى عليه القوم حين سمعوا ذلك، فقال: لا تبكوا علينا، من كان باكيا فليخرج، الم تسمعوا ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:" يعذب الميت ببكاء اهله عليه"، فمن اجل ذلك كان عبد الله لا يقر ان يبكى عنده على هالك من ولده ولا غيرهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنِ شِهَابٍ : فَقَالَ سَالِمٌ : فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ عُمَرُ : أَرْسِلُوا إِلَيَّ طَبِيبًا يَنْظُرُ إِلَى جُرْحِي هَذَا، قَالَ: فَأَرْسَلُوا إِلَى طَبِيبٍ مِنَ الْعَرَبِ، فَسَقَى عُمَرَ نَبِيذًا، فَشُبِّهَ النَّبِيذُ بِالدَّمِ حِينَ خَرَجَ مِنَ الطَّعْنَةِ الَّتِي تَحْتَ السُّرَّةِ، قَالَ: فَدَعَوْتُ طَبِيبًا آخَرَ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي مُعَاوِيَةَ، فَسَقَاهُ لَبَنًا، فَخَرَجَ اللَّبَنُ مِنَ الطَّعْنَةِ صَلْدًا أَبْيَضَ، فَقَالَ لَهُ الطَّبِيبُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اعْهَدْ، فَقَالَ عُمَرُ: صَدَقَنِي أَخُو بَنِي مُعَاوِيَةَ، وَلَوْ قُلْتَ غَيْرَ ذَلِكَ كَذَّبْتُكَ، قَالَ: فَبَكَى عَلَيْهِ الْقَوْمُ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا تَبْكُوا عَلَيْنَا، مَنْ كَانَ بَاكِيًا فَلْيَخْرُجْ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"، فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يُقِرُّ أَنْ يُبْكَى عِنْدَهُ عَلَى هَالِكٍ مِنْ وَلَدِهِ وَلَا غَيْرِهِمْ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے کے بعد فرمایا، میرے پاس طبیب کو بلا کر لاؤ جو میرے زخموں کی دیکھ بھال کرے، چنانچہ عرب کا ایک نامی گرامی طبیب بلایا گیا، اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نبیذ پلائی، لیکن وہ ناف کے نیچے لگے ہوئے زخم سے نکل آئی اور اس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو چکا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد انصار کے بنو معاویہ میں سے ایک طبیب کو بلایا، اس نے آ کر انہیں دودھ پلایا، وہ بھی ان کے زخم سے چکنا سفید نکل آیا، طبیب نے یہ دیکھ کر کہا کہ امیر المؤمنین! اب وصیت کر دیجئے، (یعنی اب بچنا مشکل ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، اگر تم کوئی دوسری بات کہتے تو میں تمہاری بات نہ مانتا۔ یہ سن کر لوگ رونے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھ پر مت روؤ، جو رونا چاہتا ہے وہ باہر چلا جائے کیا تم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، اسی وجہ سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹوں یا کسی اور کے انتقال پر رونے والوں کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا الثوري ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول:" كان اهل الجاهلية لا يفيضون من جمع، حتى يروا الشمس على ثبير، وكانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير، فافاض رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل طلوع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ، حَتَّى يَرَوْا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ، فَأَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو تاکہ ہم حملہ کریں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن المسور بن مخرمة ، وعبد الرحمن بن عبد القاري ، انهما سمعا عمر ، يقول: مررت بهشام بن حكيم بن حزام يقرا سورة الفرقان في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستمعت قراءته، فإذا هو يقرا على حروف كثيرة لم يقرئنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكدت ان اساوره في الصلاة، فنظرت حتى سلم، فلما سلم، لببته بردائه، فقلت: من اقراك هذه السورة التي تقرؤها؟ قال: اقرانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت له: كذبت، فوالله إن النبي صلى الله عليه وسلم لهو اقراني هذه السورة التي تقرؤها، قال: فانطلقت اقوده إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني سمعت هذا يقرا سورة الفرقان على حروف لم تقرئنيها، وانت اقراتني سورة الفرقان! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ارسله يا عمر، اقرا يا هشام، فقرا عليه القراءة التي سمعته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هكذا انزلت، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: اقرا يا عمر، فقرات القراءة التي اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: هكذا انزلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن القرآن انزل على سبعة احرف، فاقرءوا منه ما تيسر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، أنهما سمعا عمر ، يَقُولُ: مَرَرْتُ بِهِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَمَعْتُ قِرَاءَتَهُ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكِدْتُ أَنْ أُسَاوِرَهُ فِي الصَّلَاةِ، فَنَظَرْتُ حَتَّى سَلَّمَ، فَلَمَّا سَلَّمَ، لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا؟ قَالَ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: كَذَبْتَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُوَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ أَقُودُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا، وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ، اقْرَأْ يَا هِشَامُ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ يَا عُمَرُ، فَقَرَأْتُ الْقِرَاءَةَ الَّتِي أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال فراغت کے بعد میں نے انہیں چادر سے گھسیٹ کر پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی یہ سورت پڑھائی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اسے چھوڑ دو“، پھر ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا: انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے“، اس کے بعد ارشاد فرمایا: ”بیشک اس قرآن کا نزول سات قرائتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لئے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کر لیا کرو۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان منكم ملتمسا ليلة القدر، فليلتمسها في العشر الاواخر وترا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُلْتَمِسًا لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَلْيَلْتَمِسْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن ابن عمر : ان عمر قيل له: الا تستخلف؟ فقال:" إن اترك، فقد ترك من هو خير مني: رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن استخلف، فقد استخلف من هو خير مني: ابو بكر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ قِيلَ لَهُ: أَلَا تَسْتَخْلِفُ؟ فَقَالَ:" إِنْ أَتْرُكْ، فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: أَبُو بَكْرٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو مقرر کر دیجئے؟ فرمایا: اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر نہیں کیا تھا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اگر مقرر کر دوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر کیا تھا یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔