(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن طاوس ، عن ابن عباس : ذكر لعمر ان سمرة، وقال مرة: بلغ عمر ان سمرة باع خمرا، قال: قاتل الله سمرة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لعن الله اليهود، حرمت عليهم الشحوم، فجملوها، فباعوها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : ذُكِرَ لِعُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ، وَقَالَ مَرَّةً: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ، فَجَمَلُوهَا، فَبَاعُوهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات ذکر کی گئی کہ سمرہ نے شراب فروخت کی ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ اسے ہلاک کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنا لیا اور اسے فروخت کرنا شروع کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، ومعمر ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، عن عمر بن الخطاب ، قال: كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل، ولا ركاب، فكانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم خالصة، وكان ينفق على اهله منها نفقة سنته، وقال مرة:" قوت سنته، وما بقي جعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، وَمَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَته، وَقَالَ مَرَّةً:" قُوتَ سَنِتِه، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطا فرمائے اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آ سکے فراہم کر لیتے تھے۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟“ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن إدريس ، انبانا ابن جريج ، عن ابن ابي عمار ، عن عبد الله بن بابيه ، عن يعلى بن امية ، قال: سالت عمر بن الخطاب، قلت: ليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم ان يفتنكم الذين كفروا سورة النساء آية 101، وقد امن الله الناس؟! فقال لي عمر : عجبت مما عجبت منه، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قُلْتُ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101، وَقَدْ أَمَّنَ اللَّهُ النَّاسَ؟! فَقَالَ لِي عُمَرُ : عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ".
یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم ”خوف“ کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن و امان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہو گیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے؟) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: جاء رجل إلى عمر وهو بعرفة، قال ابو معاوية : وحدثنا الاعمش ، عن خيثمة ، عن قيس بن مروان : انه اتى عمر ، فقال: جئت يا امير المؤمنين من الكوفة، وتركت بها رجلا يملي المصاحف عن ظهر قلبه، فغضب وانتفخ حتى كاد يملا ما بين شعبتي الرجل، فقال: ومن هو ويحك؟ قال عبد الله بن مسعود: فما زال يطفا ويسرى عنه الغضب، حتى عاد إلى حاله التي كان عليها، ثم قال: ويحك، والله ما اعلمه بقي من الناس احد هو احق بذلك منه، وساحدثك عن ذلك، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزال يسمر عند ابي بكر الليلة كذلك في الامر من امر المسلمين، وإنه سمر عنده ذات ليلة، وانا معه، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخرجنا معه، فإذا رجل قائم يصلي في المسجد، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يستمع قراءته، فلما كدنا ان نعرفه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سره ان يقرا القرآن رطبا كما انزل، فليقراه على قراءة ابن ام عبد"، قال: ثم جلس الرجل يدعو، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول له:" سل تعطه، سل تعطه"، قال عمر: قلت: والله لاغدون إليه فلابشرنه، قال: فغدوت إليه لابشره، فوجدت ابا بكر قد سبقني إليه فبشره، ولا والله ما سبقته إلى خير قط، إلا وسبقني إليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَة ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَة : وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ : أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ ، فَقَالَ: جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيْ الرَّجلِ، فَقَالَ: وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ، حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَلكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ"، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَهُ:" سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ، فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ، وَلَا وَاللَّهِ مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ، إِلَّا وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ.
قیس بن مروان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیر المؤمنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آ رہا ہوں، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہو گئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھر گئے اور مجھ سے پوچھا: افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہو گئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہو گئے اور مجھ سے فرمایا: کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعا کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے: ”مانگو، تمہیں عطاء کیا جائے گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عابس بن ربيعة ، قال: رايت عمر يقبل الحجر، ويقول:" إني لاقبلك واعلم انك حجر، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك، لم اقبلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ:" إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، لَمْ أُقَبِّلْكَ".
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: خطب عمر الناس بالجابية، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في مثل مقامي هذا، فقال:" احسنوا إلى اصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يجيء قوم يحلف احدهم على اليمين قبل ان يستحلف عليها، ويشهد على الشهادة قبل ان يستشهد، فمن احب منكم ان ينال بحبوحة الجنة، فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين ابعد، ولا يخلون رجل بامراة، فإن ثالثهما الشيطان، ومن كان منكم تسره حسنته، وتسوءه سيئته، فهو مؤمن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي مِثْلِ مَقَامِي هَذَا، فَقَالَ:" أَحْسِنُوا إِلَى أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ يَحْلِفُ أَحَدُهُمْ عَلَى الْيَمِينِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَحْلَفَ عَلَيْهَا، وَيَشْهَدُ عَلَى الشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدَ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنَالَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، وَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ تَسُرُّهُ حَسَنَتُهُ، وَتَسُوءُهُ سَيِّئَتُهُ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر ”جابیہ“ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوں اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد ایک قوم ایسی آئے گی جو قسم کی درخواست سے پہلے ہی قسم کھانے کے لئے تیار ہو گی اور گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہو جائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ”جماعت“ کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات غير أنه اختلف فيه على عبدالملك بن عمير، لكثرة اختلاف الثقات عنه فى الإسناد
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يسمر عند ابي بكر الليلة، كذلك في الامر من امر المسلمين، وانا معه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ، كَذَلِكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة، قال: قال عمر :" ما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء اكثر مما سالته عن الكلالة، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال: تكفيك آية الصيف التي في آخر سورة النساء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" مَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنِ الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ”کلالہ“ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی مرتبہ سوال کیا، اس سے زیادہ کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے سورت نساء کی آخری آیت جو موسم گرما میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔