سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”علی! پہلی نظر کسی نا محرم پر پڑنے کے بعد اس پر دوسری نظر نہ ڈالنا، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہوگی، دوسری نہیں ہوگی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اِسناد ضعيف ، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام حمزہ رکھا گیا، اور جب حسین کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام ان کے چچا کے نام پر جعفر رکھا گیا، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں کے نام بدل دوں۔“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام علی الترتیب حسن اور حسین رکھ دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عثمان بن المغيرة ، عن ابي صادق ، عن ربيعة بن ناجذ ، عن علي رضي الله عنه، قال: جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، او دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بني عبد المطلب، فيهم رهط كلهم ياكل الجذعة، ويشرب الفرق، قال: فصنع لهم مدا من طعام، فاكلوا حتى شبعوا، قال: وبقي الطعام كما هو كانه لم يمس، ثم دعا بغمر، فشربوا حتى رووا، وبقي الشراب كانه لم يمس او لم يشرب، فقال:" يا بني عبد المطلب، إني بعثت لكم خاصة، وإلى الناس بعامة، وقد رايتم من هذه الآية ما رايتم، فايكم يبايعني على ان يكون اخي وصاحبي؟"، قال: فلم يقم إليه احد، قال: فقمت إليه، وكنت اصغر القوم، قال: فقال:" اجلس"، قال: ثلاث مرات، كل ذلك اقوم إليه، فيقول لي:" اجلس"، حتى كان في الثالثة ضرب بيده على يدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِذٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فِيهِمْ رَهْطٌ كُلُّهُمْ يَأْكُلُ الْجَذَعَةَ، وَيَشْرَبُ الْفَرَقَ، قَالَ: فَصَنَعَ لَهُمْ مُدًّا مِنْ طَعَامٍ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: وَبَقِيَ الطَّعَامُ كَمَا هُوَ كَأَنَّهُ لَمْ يُمَسَّ، ثُمَّ دَعَا بِغُمَرٍ، فَشَرِبُوا حَتَّى رَوَوْا، وَبَقِيَ الشَّرَابُ كَأَنَّهُ لَمْ يُمَسَّ أَوْ لَمْ يُشْرَبْ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي بُعِثْتُ لَكُمْ خَاصَّةً، وَإِلَى النَّاسِ بِعَامَّةٍ، وَقَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ مَا رَأَيْتُمْ، فَأَيُّكُمْ يُبَايِعُنِي عَلَى أَنْ يَكُونَ أَخِي وَصَاحِبِي؟"، قَالَ: فَلَمْ يَقُمْ إِلَيْهِ أَحَدٌ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، وَكُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَالَ:" اجْلِسْ"، قَالَ: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ أَقُومُ إِلَيْهِ، فَيَقُولُ لِي:" اجْلِسْ"، حَتَّى كَانَ فِي الثَّالِثَةِ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى يَدِي.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کو دعوت پر جمع فرمایا، ان میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ پورا پورا بکری کا بچہ کھا جاتے اور سولہ رطل کے برابر پانی پی جاتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی دعوت میں صرف ایک مد (آسانی کے لئے ایک کلو فرض کر لیں) کھانا تیار کروایا، ان لوگوں نے کھانا شروع کیا تو اتنے سے کھانے میں وہ سب لوگ سیر ہوگئے اور کھانا ویسے ہی بچا رہا، محسوس ہوتا تھا کہ اسے کسی نے چھوا تک نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا پانی منگوایا، وہ ان سب نے سیراب ہو کر پیا لیکن پانی اسی طرح بچا رہا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ان تمام مراحل سے فراغت پا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے بنو عبدالمطلب! مجھے خصوصیت کے ساتھ تمہاری طرف اور عمومیت کے ساتھ پوری انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، اور تم نے کھانے کا یہ معجزہ تو دیکھ ہی لیا ہے، اب تم میں سے کون مجھ سے اس بات پر بیعت کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی بنے؟“ اس پر کوئی بھی کھڑا نہ ہوا، یہ دیکھ کر - کہ اگرچہ میں سب سے چھوٹا ہوں - میں کھڑا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیٹھ جانے کا حکم دیا اور تین مرتبہ اپنی بات کو دہرایا، اور تینوں مرتبہ اسی طرح ہوا کہ میں کھڑا ہو جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بیٹھنے کا حکم دے دیتے، یہاں تک کہ تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا (بیعت فرما لیا)۔
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے علی! جنت میں تمہارے لئے ایک خزانہ رکھا گیا ہے اور تم اس کے دو سینگوں والے ہو (مکمل مالک ہو)، اس لئے اگر کسی نا محرم پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ اس پر نظر مت ڈالو، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہو جائے گی لیکن دوسری معاف نہیں ہوگی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی شروع کی تو اپنے دست مبارک سے تیس اونٹ ذبح کئے اور مجھے حکم دیا تو باقی کے اونٹ میں نے ذبح کئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دو اور گوشت بھی تقسیم کر دو، اور یہ کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعنه، بينه و بين ابن ابي نجيح فيه رجل مبهم كما فى رواية برقم : 2359 ثم هو مخالف لما فى صحيح مسلم : 1218 من حديث جابر : ... فنحر ثلاثاً و ستين بيده ثم اعطي علياً، فنحر ما غبر.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت عاصم بن ضمرة ، يقول: سالنا عليا رضي الله عنه عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من النهار، فقال: إنكم لا تطيقون ذلك، قلنا: من اطاق منا ذلك، قال" إذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند العصر صلى ركعتين، وإذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند الظهر صلى اربعا، ويصلي قبل الظهر اربعا، وبعدها ركعتين، وقبل العصر اربعا، ويفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين والنبيين، ومن تبعهم من المؤمنين والمسلمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ ، يَقُولُ: سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَ ذَلِكَ، قُلْنَا: مَنْ أَطَاقَ مِنَّا ذَلِكَ، قَالَ" إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَيُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، وَيَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ".
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتا جتنا ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تمہارے معاملہ میں وہی ہوگا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ پر گناہ کا بہتان باندھا، اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام و مرتبہ نہ تھا۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک وہ محبت میں حد سے آگے بڑھ جانے والے جو مجھے اس مقام پر فائز کر دیں گے جو میرا مقام نہیں ہے، اور دوسرے وہ بغض رکھنے والے جو میری عداوت میں آ کر مجھ پر ایسے بہتان باندھیں گے جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحكم بن عبدالمك القرشي، ولجهالة ربيعة بن ناجذ
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو محمد سفيان بن وكيع بن الجراح بن مليح ، حدثنا خالد بن مخلد ، حدثنا ابو غيلان الشيباني ، عن الحكم بن عبد الملك ، عن الحارث بن حصيرة ، عن ابي صادق ، عن ربيعة بن ناجد ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن فيك من عيسى مثلا، ابغضته يهود حتى بهتوا امه، واحبته النصارى حتى انزلوه بالمنزل الذي ليس به"، الا وإنه يهلك في اثنان: محب يقرظني بما ليس في، ومبغض يحمله شنآني على ان يبهتني، الا إني لست بنبي، ولا يوحى إلي، ولكني اعمل بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم ما استطعت، فما امرتكم من طاعة الله، فحق عليكم طاعتي فيما احببتم وكرهتم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو مُحَمَّدٍ سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ بْنِ مَلِيحٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَيْلَانَ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرَةَ ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ فِيكَ مِنْ عِيسَى مَثَلًا، أَبْغَضَتْهُ يَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وَأَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلِ الَّذِي لَيْسَ بِهِ"، أَلَا وَإِنَّهُ يَهْلِكُ فِيَّ اثْنَانِ: مُحِبٌّ يُقَرِّظُنِي بِمَا لَيْسَ فِيَّ، وَمُبْغِضٌ يَحْمِلُهُ شَنَآنِي عَلَى أَنْ يَبْهَتَنِي، أَلَا إِنِّي لَسْتُ بِنَبِيٍّ، وَلَا يُوحَى إِلَيَّ، وَلَكِنِّي أَعْمَلُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اسْتَطَعْتُ، فَمَا أَمَرْتُكُمْ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَحَقٌّ عَلَيْكُمْ طَاعَتِي فِيمَا أَحْبَبْتُمْ وَكَرِهْتُمْ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: ”تمہارے معاملہ میں وہی ہوگا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ پر گناہ کا بہتان باندھا، اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام و مرتبہ نہ تھا۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک وہ محبت میں حد سے آگے بڑھ جانے والے جو مجھے اس مقام پر فائز کر دیں گے جو میرا مقام نہیں ہے، اور دوسرے وہ بغض رکھنے والے جو میری عداوت میں آ کر مجھ پر ایسے بہتان باندھیں جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خبردار! میں نبی نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ پر وحی آتی ہے، میں تو حسب استطاعت صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں، اس لئے اللہ کی اطاعت کے حوالے سے میں تمہیں جو حکم دوں - خواہ وہ تمہیں اچھا لگے یا برا - اس میں تم پر میری اطاعت کرنا میرا حق بنتا ہے۔