وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الخلافة بالمدينة والملك بالشام» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بِالْمَدِينَةِ وَالْمُلْكُ بِالشَّام»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خلافت مدینہ میں ہے جبکہ بادشاہت شام میں ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيهقي في دلائل النبوة (6/ 447) والحاکم (3/ 72 ح 4440) فيه سليمان بن ابي سليمان الھاشمي مولي ابن عباس: لا يعرف وھشيم مدلس وعنعن»
وعن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رايت عمودا من نور خرج من تحت راسي ساطعا حتى استقر بالشام» . رواهما البيهقي في «دلائل النبوة» وَعَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ عَمُودًا مِنْ نُورٍ خَرَجَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي سَاطِعًا حَتَّى اسْتَقَرَّ بِالشَّامِ» . رَوَاهُمَا الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کے نیچے سے نورانی ستون نکلتا ہوا دیکھا اور وہ اوپر کو بلند ہوا حتیٰ کہ وہ شام میں جا ٹھہرا۔ “ دونوں روایات کو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 449) من طريق يعقوب بن سفيان الفارسي و ھو في کتاب المعرفة و التاريخ له (2/ 311) ٭ فيه نصر بن محمد بن سليمان الحمصي ضعيف ضعفه الجمھور و أبوه مجھول الحال فالسند ضعيف. و للحديث شواھد ضعيفة، انظر تنقيح الرواة (3/ 274) وغيره.»
وعن ابي الدرداء ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن فسطاط المسلمين يوم الملحمة بالغوطة إلى جانب مدينة يقال لها: دمشق من خير مدائن الشام. رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ فُسْطَاطَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ بِالْغُوطَةِ إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ مِنْ خَيْرِ مَدَائِنِ الشَّامِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جنگ و جدل کے دن مسلمانوں کا گروہ دمشق نامی شہر کی جانب الغوطہ کے مقام پر ہو گا، یہ شام کا سب سے بہترین شہر ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4298)»
وعن عبد الرحمن بن سليمان قال: سياتي ملك من ملوك العجم فيظهر على المدائن كلها إلا دمشق. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَيَأْتِي مَلِكٌ مِنْ مُلُوكِ الْعَجَمِ فَيَظْهَرُ عَلَى الْمَدَائِنِ كلِّها إِلا دمشق. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عبد الرحمن بن سلیمان بیان کرتے ہیں، عجمی بادشاہ ظاہر ہو گا تو وہ دمشق کے علاوہ تمام شہروں پر غالب آ جائے گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4639) ٭ فيه عبد العزيز: لم أجده له ترجمة و لعله عبد الله بن العلاء کما يظھر من تھذيب الکمال و إن صح فالسند صحيح.»
عن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما اجلكم في اجل من خلا من الامم ما بين صلاة العصر إلى مغرب الشمس وإنما مثلكم ومثل اليهود والنصارى كرجل استعمل عمالا فقال: من يعمل إلى نصف النهار على قيراط قيراط فعملت اليهود إلى نصف النهار على قيراط قيراط ثم قال: من يعمل لي من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط قيراط فعملت النصارى من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط قيراط. ثم قال: من يعمل لي من صلاة العصر إلى مغرب الشمس على قيراطين قيراطين؟ الا فانتم الذين يعملون من صلاة العصر إلى مغرب الشمس الا لكم الاجر مرتين فغضبت اليهود والنصارى فقالوا: نحن اكثر عملا واقل عطاء قال الله تعالى: هل ظلمتكم من حقكم شيئا؟ قالوا: لا. قال الله تعالى: فإنه فضلي اعطيه من شئت. رواه البخاري عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِي أَجَلِ مَنْ خَلَا مِنَ الْأُمَمِ مَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ: من يعْمل إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْيَهُودُ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ النَّصَارَى مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ. ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ؟ أَلَا فَأَنْتُمُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ أَلَا لَكُمُ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ فَغَضِبَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالُوا: نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلًا وَأَقَلُّ عَطَاءً قَالَ الله تَعَالَى: هَل ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا؟ قَالُوا: لَا. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَإِنَّهُ فَضْلِي أُعْطِيهِ مَنْ شِئْتُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا زمانہ پچھلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے، اور تمہاری مثال اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسے ہے، جیسے کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر رکھے اور اس نے کہا: آدھے دن تک ایک ایک قراط کے بدلے میرا کام کون کرے گا؟ ایک ایک قراط کے بدلے میں یہود نے نصف دن تک کام کیا، پھر اس نے کہا: کون ہے جو ایک ایک قراط پر میرے لیے نصف دن سے نماز عصر تک کام کرے گا؟ نصاریٰ نے نصف دن سے لے کر نماز عصر تک ایک ایک قراط پر کام کیا، پھر اس نے کہا: نماز عصر سے غروب آفتاب تک دو دو قراط پر میرے لیے کون کام کرے گا؟ سن لو! وہ تم ہو جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک کام کرو گے۔ سن لو! ہمارے لیے دگنا اجر ہے، (اس پر) یہود و نصاریٰ ناراض ہو گئے تو انہوں نے کہا: ہم کام زیادہ کریں اور اجر و مزدوری کم پائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میں نے تمہارے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ میرا فضل و مہربانی ہے میں اسے جسے چاہوں گا عطا کروں گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3459)»
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن من اشد امتي لي حبا ناسا يكونون بعدي يود احدهم لو رآني باهله وماله» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِنْ أَشَدِّ أمتِي لي حُبَّاً نَاسا يَكُونُونَ بَعْدِي يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَاله» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ خواہش رکھے گا کہ کاش میرے اہل و عیال اور میرے سارے مال کے بدلے میں وہ مجھے دیکھ لے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (12/ 2832)»
وعن معاوية قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يزال من امتي امة قائمة بامر الله لا يضرهم من خذلهم ولا من خالفهم حتى ياتي امر الله وهم على ذلك» . متفق عليه وذكر حديث انس «إن من عباد الله» في «كتاب القصاص» وَعَن مُعَاوِيَة قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَذُكِرَ حَدِيثُ أَنَسٍ «إِنَّ مِنْ عِبَادِ الله» فِي «كتاب الْقصاص»
معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت میں سے ایک جماعت اللہ کے دین پر قائم رہے گی، انہیں بے یار و مددگار چھوڑنے والا انہیں نقصان پہنچا سکے گا نہ ان کی مخالفت کرنے والا حتیٰ کہ اللہ کا امر (موت کا وقت) آ جائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے۔ “ متفق علیہ۔ اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((ان من عباد اللہ)) کتاب القصاص میں ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3641) و مسلم (174/ 1037) و حديث أنس: ’’إن من عباد الله‘‘ تقدم (3460)»
عن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مثل امتي مثل المطر لا يدرى اوله خير ام آخره» . رواه الترمذي عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے، معلوم نہیں اس کے اول میں خیر ہے یا اس کے آخر میں خیر ہے۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (2869 وقال: حسن غريب)»
عن جعفر عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ابشروا إنما مثل امتي مثل الغيث لا يدرى آخره خير ام اوله؟ او كحديقة اطعم منها فوج عاما لعل آخرها فوجا ان يكون اعرضها عرضا واعمقها عمقا واحسنها حسنا كيف تهلك امة انا اولها والمهدي وسطها والمسيح آخرها ولكن بين ذلك فيج اعوج ليسوا ولا انا منهم» رواه رزين عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْشِرُوا إِنَّمَا مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْغَيْثِ لَا يُدْرَى آخِرُهُ خَيْرٌ أَمْ أَوَّلُهُ؟ أَوْ كَحَدِيقَةٍ أُطْعِمَ مِنْهَا فَوْجٌ عَامًا لَعَلَّ آخِرَهَا فَوْجًا أَنْ يكون أعرَضَها عرضا وَأَعْمَقَهَا عُمْقًا وَأَحْسَنَهَا حُسْنًا كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا أَوَّلُهَا وَالْمَهْدِيُّ وَسَطُهَا وَالْمَسِيحُ آخِرُهَا وَلَكِنْ بَين ذَلِك فَيْجٌ أَعْوَج لَيْسُوا وَلَا أَنا مِنْهُم» رَوَاهُ رزين
جعفر اپنے والد سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ، میری ��مت کی مثال، بارش کی طرح ہے، معلوم نہیں اس کے آخر میں خیر ہے یا اس کے اول میں خیر ہے، یا ایک باغ کی طرح ہے، اس میں سے ایک سال ایک فوج کو خوراک دی گئی، پھر ایک سال اس میں سے ایک اور فوج کو خوراک دی گئی، شاید کہ آخری فوج پہنائی کے اعتبار سے زیادہ وسیع اور گہرائی کے لحاظ سے زیادہ گہری ہو اور خوبصورتی کے اعتبار سے زیادہ حسین ہو، وہ امت کیسے ہلاک ہو گی جس کے شروع میں میں ہوں، مہدی اس کے وسط میں ہے اور مسیح ؑ اس کے آخر میں ہے، لیکن اس دوران ایک گروہ کج روا اور ٹیڑھا ہو گا وہ مجھ سے ہیں نہ میں ان سے ہوں۔ “ لم اجدہ، رواہ رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «لم أجده، رواه رزين (لم أجده) وانظر الحديث المتقدم (3340) ٭ و للحديث شاھد منکر في تاريخ دمشق (50/ 365، 5/ 380) سنده مظلم (انظر الضعيفة للألباني: 2349)»
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اي الخلق اعجب إليكم إيمانا؟» قالوا: فالنبيون قال: «ومالهم لا يؤمنون والوحي ينزل عليهم؟» قالوا: فنحن. قال: «ومالكم لا تؤمنون وانا بين اظهركم؟» قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن اعجب الخلق إلي إيمانا لقوم يكونون من بعدي يجدون صحفا فيها كتاب يؤمنون بما فيها» وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّ الْخَلْقِ أَعْجَبُ إِلَيْكُمْ إِيمَانًا؟» قَالُوا: فالنبيون قَالَ: «ومالهم لَا يُؤْمِنُونَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ؟» قَالُوا: فَنَحْنُ. قَالَ: «ومالكم لَا تُؤْمِنُونَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟» قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِن أَعْجَبَ الْخَلْقِ إِلَيَّ إِيمَانًا لَقَوْمٌ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِي يَجِدُونَ صُحُفًا فِيهَا كِتَابٌ يُؤْمِنُونَ بِمَا فِيهَا»
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے نزدیک کس مخلوق کا ایمان زیادہ اچھا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: فرشتوں کا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کیا ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں جبکہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں۔ “ انہوں نے عرض کیا: پھر انبیا ؑ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کیا ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں حالانکہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے۔ “ انہوں نے عرض کیا، پھر ہم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہے کہ ایمان نہ لاؤ جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک ان لوگوں کا ایمان سب سے اچھا ہے جو میرے بعد ہوں گے، وہ صحیفے پائیں گے ان میں ایک کتاب ہو گی وہ اس کی ہر چیز پر ایمان لائیں گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 548) ٭ والمغيرة بن قيس: ذکره ابن حبان في الثقات (9/ 168) و قال أبو حاتم الرازي: ’’منکر الحديث‘‘ (الجرح والتعديل 228/8) و الجرح فيه مقدم.»