وعن ابي مسعود الانصاري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من ههنا جاءت الفتن-نحو المشرق-والجفاء وغلظ القلوب في الفدادين اهل الوبر عند اصول اذناب الإبل والبقر في ربيعة ومضر» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مِنْ هَهُنَا جَاءَتِ الْفِتَنُ-نَحْوَ الْمَشْرِقِ-وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرف یعنی مشرق کی طرف سے فتنے نمودار ہوں گے، جفا اور سخت دلی جنگل میں رہنے والے خیمہ نشینوں ربیعہ اور مضر (قبیلوں) سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں میں ہو گی جو اونٹوں اور بیلوں کی دموں کے پیچھے چل رہے ہوں گے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3498) و مسلم (81/ 51)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غلظ القلوب والجفاء في المشرق والإيمان في اهل الحجاز» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غِلَظُ الْقُلُوبِ وَالْجَفَاءُ فِي الْمَشْرِقِ وَالْإِيمَانُ فِي أَهْلِ الْحِجَازِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دلوں کی سختی اور جفا مشرق والوں میں ہے، اور ایمان اہل حجاز میں ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (92/ 53)»
وعن ابن عمر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا» . قالوا: يا رسول الله وفي نجدنا؟ فاظنه قال في الثالثة: «هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان» . رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: «هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا يَطْلُعُ قرن الشَّيْطَان» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت فرما۔ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہمارے نجد میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت فرما۔ “ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہمارے نجد میں، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے طلوع ہو گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (7095)»
عن انس عن زيد بن ثابت ان النبي صلى الله عليه وسلم نظر قبل اليمن فقال: «اللهم اقبل بقلوبهم وبارك لنا في صاعنا ومدنا» . رواه الترمذي عَنْ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ قِبَلَ الْيَمَنِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِهِمْ وَبَارِكْ لَنَا فِي صاعِنا ومُدِّنا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف دیکھا تو فرمایا: ”اے اللہ! ان کے دلوں کو (ہماری طرف) متوجہ فرما، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت فرما۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3934 وقال: حسن غريب)»
وعن زيد بن ثابت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طوبى للشام» قلنا: لاي ذلك يا رسول الله؟ قال: «لان ملائكة الرحمن باسطة اجنحتها عليها» رواه احمد والترمذي وَعَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طُوبَى لِلشَّامِ» قُلْنَا: لِأَيٍّ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لِأَنَّ مَلَائِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا» رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شام کے لیے خوشحالی ہے۔ “ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ کس وجہ سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ رحمن کے فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 184. 185 ح 21942) و الترمذي (3954 وقال: حسن غريب)»
وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ستخرج نار من نحو حضرموت او من حضرموت تحشر الناس» قلنا: يا رسول الله فما تامرنا؟ قال: «عليكم بالشام» . رواه الترمذي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَخْرُجُ نَارٌ مِنْ نَحْوِ حَضْرَمَوْتَ أَوْ مِنْ حَضْرَمَوْتَ تَحْشُرُ النَّاسَ» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرنَا؟ قَالَ: «عَلَيْكُم بِالشَّام» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حضرموت کی طرف سے یا حضرموت سے آگ نکلے گی وہ لوگوں کو اکٹھا کرے گی۔ “ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم شام کی راہ اختیار کرنا۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2217 وقال: حسن صحيح غريب)»
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إنها ستكون هجرة بعد هجرة فخيار الناس إلى مهاجر إبراهيم» . وفي رواية: «فخيار اهل الارض الزمهم مهاجر إبراهيم ويبقى في الارض شرار اهلها تلفظهم ارضوهم تقذرهم نفس الله تحشرهم النار مع القردة والخنازير تبيت معهم إذا باتوا وتقيل معهم إذا قالوا» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ فَخِيَارُ النَّاسِ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «فَخِيَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِيمَ وَيَبْقَى فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرَضُوهُمْ تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ الله تَحْشُرهُمْ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عنقریب ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی، بہترین لوگ وہ ہوں گے جو ابراہیم ؑ کی جگہ (شام) کی طرف ہجرت کریں گے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”زمین والوں میں سے سب سے بہتر لوگ وہ ہوں گے جن کے زیادہ تر لوگ ابراہیم ؑ کی جائے ہجرت (شام) کی طرف ہجرت کریں گے، اور زمین پر بدترین لوگ رہ جائیں گے، ان کی اراضی انہیں پھینک دیں گی، اللہ انہیں ناپسند فرمائے گا، آگ انہیں بندروں اور خنزیروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی وہ (آگ) ان کے ساتھ رات بسر کرے گی، جب وہ رات بسر کریں گے، اور جب وہ قیلولہ کریں گے تو وہ ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (2482)»
عن ابن حوالة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سيصير الامر إلى ان تكونوا جنودا مجندة جند بالشام وجند باليمن وجند بالعراق» . فقال ابن حوالة: خر لي يا رسول الله. إن ادركت ذلك. فقال: «عليك بالشام فإنها خيرة الله من ارضه يجتبي إليها خيرته من عباده فاما إن ابيتم فعليكم بيمنكم واسقوا من غدركم فإن الله توكل لي بالشام واهله» . رواه احمد وابو داود عَن ابْنِ حَوَالَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «سيصير الْأَمر إِلَى أَنْ تَكُونُوا جُنُودًا مُجَنَّدَةً جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ» . فَقَالَ ابْنُ حَوَالَةَ: خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ. إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ. فَقَالَ: «عَلَيْك بِالشَّامِ فَإِنَّهَا خِيَرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيَرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ وَاسْقُوا مِنْ غُدَرِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد
ابن حوالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب امر (امر اسلام یا امر قتال) اس طرح ہو گا کہ تم لشکروں کا مجموعہ ہو گے، ایک لشکر شام میں ہو گا، ایک لشکر یمن میں اور ایک لشکر عراق میں۔ “ ابن حوالہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اگر میں یہ صورت حال پا لوں تو آپ میرے لیے کسی لشکر کا انتخاب فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم شام کے لشکر کو لازم پکڑنا، کیونکہ وہ اللہ کی سرزمین میں ایک پسندیدہ خطہ ہے اور وہ اپنے پسندیدہ بندوں کو اس کی طرف لائے گا، ہاں اگر تم وہاں نہ جاؤ تو پھر تم یمن کا رخ کرنا اور اپنے حوضوں سے سیراب ہونا کیونکہ اللہ عزوجل نے شام اور اہل شام کی محافظت کی مجھے ضمانت دی ہے۔ “ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (4/ 110 ح 17130) و أبو داود (2483)»
عن شريح بن عبيد قال: ذكر اهل الشام عند علي [رضي الله عنه] وقيل العنهم يا امير المؤمنين قال: لا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الابدال يكونون بالشام وهم اربعون رجلا كلما مات رجل ابدل الله مكانه رجلا يسقى بهم الغيث وينتصر بهم على الاعداء ويصرف عن اهل الشام بهم العذاب» عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّام عِنْد عليٍّ [رَضِي الله عَنهُ] وَقِيلَ الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: لَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الأعداءِ وَيصرف عَن أهل الشَّام بهم الْعَذَاب»
شریح بن عبید ؒ بیان کرتے ہیں، علی رضی اللہ عنہ کے پاس اہل شام کا ذکر کیا گیا اور عرض کیا گیا، امیر المومنین! ان پر لعنت بھیجیں، انہوں نے فرمایا: نہیں، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ابدال شام میں ہوں گے، اور وہ چالیس افراد ہیں جب ایک آدمی فوت ہو جائے گا تو اللہ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو لے آئے گا، ان کی وجہ سے بارش برستی ہے، ان کے ذریعے دشمنوں سے بدلہ لیا جاتا ہے اور ان کی وجہ سے شام سے عذاب دور کر دیا جاتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 112 ح 896) ٭ شريح بن عبيد عن علي رضي الله عنه: منقطع، فالسند ضعيف لانقطاعه. و قال سيدنا علي رضي الله عنه: ’’ستکون فتنة يحصل الناس منھا کما يحصل الذھب في المعدن فلا تسبوا أھل الشام و سبوا ظلمتھم فإن فيھم الأبدال و سيرسل الله إليھم سيبًا من السماء فيغرقھم...‘‘ إلخ رواه الحاکم (4/ 553 ح 8658) و صححه ووافقه الذهبي و سنده صحيح.»
وعن رجل من الصحابة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ستفتح الشام فإذا خيرتم المنازل فيها فعليكم بمدينة يقال له دمشق فإنها معقل المسلمين من الملاحم وفسطاطها منها ارض يقال لها: الغوطة. رواهما احمد وَعَنْ رَجُلٍ مِنَ الصَّحَابَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَتُفْتَحُ الشَّامُ فإِذا خُيِّرْتم المنازلَ فِيهَا فَعَلَيْكُم بِمَدِينَة يُقَال لَهُ دِمَشْقُ فَإِنَّهَا مَعْقِلُ الْمُسْلِمِينَ مِنَ الْمَلَاحِمِ وَفُسْطَاطُهَا مِنْهَا أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا: الْغُوطَةُ. رَوَاهُمَا أَحْمَدُ
صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے ایک آدمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سرزمین شام فتح ہو گی، اگر تمہیں وہاں کسی جگہ کو پسند کرنے کا اختیار دیا جائے تو پھر دمشق نامی جگہ کو پسند کرنا، کیونکہ وہ حرب و قتال سے مسلمانوں کی جائے پناہ ہے اور اس کا بڑا شہر ہے، وہاں ایک جگہ ہے جسے الغوطہ کہا جاتا ہے۔ “ دونوں احادیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ صحیح، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه احمد (4/ 160 ح 17609 فيه ابو بکر بن ابي مريم ضعيف) ولحديث شواهد عند ابي داود (4298) وسنده صحيح-وغيره وبھا صح الحديث.»