وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء من ذي لهجة اصدق ولا اوفى من ابي ذر شبه عيسى بن مريم» يعني في الزهد. فقال عمر بن الخطاب كالحاسد: يا رسول الله افتعرف ذلك له؟ قال: «نعم فاعرفوه له» . رواه الترمذي وقال: حديث حسن غريب وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ وَلَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ مِنْ ذِي لَهْجَةٍ أَصْدَقَ وَلَا أَوْفَى مِنْ أَبِي ذَرٍّ شِبْهِ عِيسَى بن مَرْيَم» يَعْنِي فِي الزّهْد. فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ كَالْحَاسِدِ: يَا رَسُولَ الله أفتعرف ذَلِك لَهُ؟ قَالَ: «نعم فَاعْرِفُوهُ لَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: حَدِيث حسن غَرِيب
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آسمان تلے روئے زمین پر ابوذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ راست گو اور عہد وفا کرنے والا اور زہد میں عیسیٰ بن مریم ؑ سے زیادہ مشابہ کوئی نہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3802)»
وعن معاذ بن جبل لما حضره الموت قال: التمسوا العلم عند اربعة: عند عويمر ابي الدرداء وعند سلمان وعند ابن مسعود وعند عبد الله بن سلام الذي كان يهوديا فاسلم فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إنه عاشر عشرة في الجنة» . رواه الترمذي وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ: الْتَمِسُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَرْبَعَةٍ: عِنْدَ عُوَيْمِرٍ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَعِنْدَ سَلْمَانَ وَعِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ الَّذِي كَانَ يَهُودِيّا فَأسلم فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهُ عَاشِرُ عَشَرَةٍ فِي الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا: چار اشخاص سے علم حاصل کرو، عویمر ابودرداء سلمان، ابن مسعود اور عبداللہ بن سلام سے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہودی تھے، پھر اسلام قبول کیا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”آپ دس جنتیوں میں سے دسویں ہیں۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3804 وقال: حسن صحيح)»
وعن حذيفة قال: قالوا: يا رسول الله لو استخلفت؟ قال: «إن استخلفت عليكم فعصيتموه عذبتم ولكن ما حدثكم حذيفة فصدقوه وما اقراكم عبد الله فاقرؤوه» . رواه الترمذي وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوِ اسْتَخْلَفْتَ؟ قَالَ: «إِنِ اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْكُمْ فَعَصَيْتُمُوهُ عُذِّبْتُمْ وَلَكِنْ مَا حَدَّثَكُمْ حُذَيْفَةُ فَصَدِّقُوهُ وَمَا أقرأكم عبد الله فاقرؤوه» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ خلیفہ مقرر فرما دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں نے تم پر خلیفہ مقرر کر دیا اور تم نے اس کی نافرمانی کی تو تم عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے، لیکن حذیفہ جو تمہیں بتائیں اس کی تصدیق کرو اور عبداللہ جو تمہیں پڑھائیں اسے پڑھو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3812 وقال: حسن) ٭ فيه أبو اليقظان عثمان بن عمير: ضعيف و شريک القاضي مدلس و عنعن.»
وعنه قال: ما احد من الناس تدركه الفتنة إلا انا اخافها عليه إلا محمد بن مسلمة فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تضرك الفتنة» . رواه ابو داود وَعَنْهُ قَالَ: مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ تُدْرِكُهُ الْفِتْنَةُ إِلَّا أَنَا أَخَافُهَا عَلَيْهِ إِلَّا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْلَمَةَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَضُرُّكَ الْفِتْنَةُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہر شخص کے متعلق اندیشہ ہے کہ اسے فتنہ نقصان پہنچائے گا، لیکن ان کے متعلق کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”فتنہ تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (4663) ٭ ھشام بن حسان مدلس و عنعن.»
وعن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم راى في بيت الزبير مصباحا فقال: «يا عائشة ماارى اسماء إلا قد نفست ولا تسموه حتى اسميه» فسماه عبد الله وحنكه بتمرة بيده. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَيْتِ الزُّبَيْرِ مِصْبَاحًا فَقَالَ: «يَا عَائِشَة ماأرى أَسْمَاءَ إِلَّا قَدْ نُفِسَتْ وَلَا تُسَمُّوهُ حَتَّى أُسَمِّيَهُ» فَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ وَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ بِيَدِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کے گھر میں چراغ جلتا ہوا دیکھا تو فرمایا: ”عائشہ! میرا خیال ہے کہ اسماء کے ہاں ولادت ہوئی ہے، تم اس بچے کا نام نہ رکھنا، اس کا نام میں خود رکھوں گا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (بچے) کا نام عبداللہ رکھا اور اپنے ہاتھ سے کھجور کے ساتھ اسے گھٹی دی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3826 وقال: حسن غريب) ٭ فيه عبد الله بن مؤمل: ضعيف، و حديث مسلم (2146) ھو المحفوظ.»
وعن عبد الرحمن بن ابي عميرة عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: «اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به» . رواه الترمذي وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ”اے اللہ! اسے ہادی اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے ہدایت نصیب فرما۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3842 وقال: حسن غريب)»
وعن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اسلم الناس وآمن عمرو بن العاص» . رواه الترمذي وقا ل: هذا حديث غريب وليس إسناده بالقوي وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَسْلَمَ النَّاسُ وآمن عَمْرو بنُ الْعَاصِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وقا ل: هَذَا حَدِيث غَرِيب وَلَيْسَ إِسْنَاده بِالْقَوِيّ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں نے اسلام قبول کیا اور عمرو بن عاص ایمان لائے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اس کی اسناد قوی نہیں۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3844) و للحديث شاھد.»
وعن جابر قال: لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «يا جابر ما لي اراك منكسرا» قلت يا رسول الله استشهد ابي قتل يوم احد وترك عيالا ودينا قال افلا ابشرك بما لقي الله به اباك قال قلت بلى يا رسول الله قال ما كلم الله احدا قط إلا من وراء حجاب واحيا اباك فكلمه كفاحا فقال يا عبدي تمن علي اعطك قال يا رب تحييني فاقتل فيك ثانية قال الرب عز وجل إنه قد سبق مني انهم إليها لا يرجعون قال وانزلت هذه الآية [ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا] الآية. رواه الترمذي وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا جَابِرُ مَا لي أَرَاك منكسراً» قلت يَا رَسُول الله اسْتشْهد أبي قتل يَوْم أحد وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا قَالَ أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِي الله بِهِ أَبَاك قَالَ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حجاب وَأَحْيَا أَبَاك فَكَلمهُ كفاحا فَقَالَ يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلُ فِيكَ ثَانِيَةً قَالَ الرَّبُّ عز وَجل إِنَّه قد سبق مني أَنهم إِلَيْهَا لَا يرجعُونَ قَالَ وأنزلت هَذِهِ الْآيَةِ [وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا] الْآيَة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ملاقات کی تو فرمایا: ”جابر! کیا بات ہے کہ میں تمہیں مغموم دیکھ رہا ہوں؟“ میں نے عرض کیا: میرے والد شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے بچے اور قرض چھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس چیز کے متعلق خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ نے تیرے والد سے ملاقات فرمائی؟“ میں نے عرض کیا، ضرور اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جس سے بھی کلام فرمایا، پس پردہ کلام فرمایا، اور تیرے والد کو زندہ کیا تو اس سے حجاب کے بغیر کلام فرمایا، فرمایا: میرے بندے! تمنا کر، میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا: رب جی! تو مجھے زندہ فرما تا کہ میں تیری خاظر دوبارہ شہید کر دیا جاؤں، رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری طرف سے فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ واپس نہیں جائیں گے۔ “ تب یہ آیت نازل ہوئی: ”اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3010)»
وعنه قا ل: استغفر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم خمسا وعشرين مرة. رواه الترمذي وَعنهُ قا ل: اسْتَغْفَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خمْسا وَعشْرين مرّة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے پچیس مرتبہ مغفرت طلب کی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3852 وقال: حسن غريب صحيح) ٭ فيه أبو الزبير مدلس و عنعن و أخرج مسلم (ح 715 بعد ح 1599) من حديث أبي الزبير بغير ھذا اللفظ وھو الصحيح المحفوظ.»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كم من اشعث اغبر ذي طمرين لا يؤبه له لو اقسم على الله لابره منهم البراء بن مالك» رواء الترمذي والبيهقي في دلائل النبوة وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لَا يَؤُبَّهُ لَهُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ مِنْهُمُ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِكٍ» رواء التِّرْمِذِيّ وَالْبَيْهَقِيّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کتنے ہی لوگ ہیں جو پراگندہ بال ہیں، غبار آلود ہیں ان پر دو بوسیدہ کپڑے ہیں، ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لیں تو وہ اسے پوری فرما دیتا ہے، براء بن مالک بھی انہی میں سے ہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3854 وقال: حسن غريب) و البيھقي في دلائل النبوة (6/ 368) [وصححه الحاکم (3/ 292) ووافقه الذهبي])»