مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب المناقب
--. حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت
حدیث نمبر: 6209
Save to word اعراب
وعن سعد بن ابي وقاص قال: ما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لاحد يمشي على وجه الارض «إنه من اهل الجنة» إلا لعبد الله بن سلام. متفق عليه وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِأَحَدٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ «إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ» إِلَّا لِعَبْدِ اللَّهِ بن سَلام. مُتَّفق عَلَيْهِ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے علاوہ روئے زمین پر چلنے والے کسی اور شخص کے بارے میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ وہ اہل جنت میں سے ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3812) و مسلم (147/ 2483)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو مرتے دم تک دین پر قائم رہنے کی بشارت
حدیث نمبر: 6210
Save to word اعراب
وعن قيس بن عباد قال: كنت جالسا في مسجد المدينة فدخل رجل على وجهه اثر الخشوع فقالوا: هذا رجل من اهل الجنة فصلى ركعتين تجوز فيهما ثم خرج وتبعته فقلت: إنك حين دخلت المسجد قالوا: هذا رجل من اهل الجنة. قال: والله ما ينبغي لاحد ان يقول ما لا يعلم فساحدثك لم ذاك؟ رايت رؤيا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقصصتها عليه ورايت كاني في روضة-ذكر من سعتها وخضرتها-وسطها عمود من حديد اسفله في الارض واعلاه في السماء في اعلاه عروة فقيل لي: ارقه. فقلت: لا استطيع فاتاني منصف فرفع ثيابي من خلفي فرقيت حتى كنت في اعلاه فاخذت بالعروة فقيل: استمسك فاستيقظت وإنها لفي يدي فقصصتها على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «تلك الروضة الإسلام وذلك العمود عمود الإسلام وتلك العروة العروة الوثقى فانت على الإسلام حتى تموت وذاك الرجل عبد الله بن سلام» . متفق عليه وَعَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ فَدَخَلَ رَجُلٌ عَلَى وَجْهِهِ أَثَرُ الْخُشُوعِ فَقَالُوا: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ تَجَوَّزَ فِيهِمَا ثُمَّ خَرَجَ وَتَبِعْتُهُ فَقُلْتُ: إِنَّكَ حِينَ دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ قَالُوا: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. قَالَ: وَاللَّهِ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ فَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ ذَاكَ؟ رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ كَأَنِّي فِي رَوْضَةٍ-ذَكَرَ مِنْ سَعَتِهَا وَخُضْرَتِهَا-وَسَطَهَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ أَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ وَأَعْلَاهُ فِي السَّمَاءِ فِي أَعْلَاهُ عُرْوَةٌ فَقِيلَ لِيَ: ارْقَهْ. فَقُلْتُ: لَا أَسْتَطِيعُ فَأَتَانِي مِنْصَفٌ فَرَفَعَ ثِيَابِي مِنْ خَلْفِي فرقِيتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَاهُ فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ فَقِيلَ: اسْتَمْسِكْ فَاسْتَيْقَظْتُ وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «تِلْكَ الرَّوْضَةُ الْإِسْلَامُ وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ وَتِلْكَ العروة الْعُرْوَةُ الْوُثْقَى فَأَنْتَ عَلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ وَذَاكَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
قیس بن عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اس کے چہرے پر خشوع کے آثار تھے۔ حاضرین نے کہا: یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے، چنانچہ اس نے اختصار کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، پھر وہ چلا گیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گیا، تو میں نے کہا: جس وقت آپ مسجد میں تشریف لائے تھے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے۔ اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ایسی بات کہے جسے وہ جانتا نہیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ایسے کیوں ہے میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دور میں خواب دیکھا تو میں نے اسے آپ سے بیان کیا: میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں، انہوں نے اس کی وسعت اور اس کی شادابی کا ذکر کیا، اس کے وسط میں لوہے کا ستون ہے، اس کا نچلا حصہ زمین میں ہے اور اس کا اوپر والا حصہ آسمان میں ہے، اس کی چوٹی پر ایک حلقہ (کڑا) ہے، مجھے کہا گیا: اس پر چڑھو، میں نے کہا: میں استطاعت نہیں رکھتا، میرے پاس ایک خادم آیا اس نے پیچھے سے میرے کپڑے اٹھائے تو میں اوپر چڑھ گیا، حتیٰ کہ میں نے اس کی چوٹی پر پہنچ کر حلقے (کڑے) کو پکڑ لیا، مجھے کہا گیا: مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو، میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میں بیدار ہو گیا، میں نے اسے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ باغ اسلام ہے، اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے تم تا دم مرگ اسلام پر رہو گے۔ اور وہ آدمی عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3813) و مسلم (148/ 2484)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت
حدیث نمبر: 6211
Save to word اعراب
عن انس قال: كان ثابت بن قيس بن شماس خطيب الانصار فلما نزلت هذه الآية: [يا ايها الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي] إلى آخر الآية جلس ثابت في بيته واحتبس عن النبي صلى الله عليه وسلم فسال النبي صلى الله عليه وسلم سعد بن معاذ فقال: «ما شان ثابت ايشتكي؟» فاتاه سعد فذكر له قول رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ثابت: انزلت هذه الآية ولقد علمتم اني من ارفعكم صوتا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فانا من اهل النار فذكر ذلك سعد للنبي صلى الله عليه وسلم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بل هو من اهل الجنة» . رواه مسلم عَن أَنَسٍ قَالَ: كَانَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شماس خطيب الْأَنْصَار فَلَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة: [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوق صَوت النَّبِي] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتٌ فِي بَيْتِهِ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ: «مَا شَأْنُ ثَابِتٍ أَيَشْتَكِي؟» فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ هُوَ من أهل الْجنَّة» . رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ انصار کے خطیب تھے، چنانچہ جب یہ آیت: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز سے بلند نہ کرو۔ نازل ہوئی تو ثابت رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آنا بند کر دیا۔ چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ثابت رضی اللہ عنہ کا کیا معاملہ ہے کیا وہ بیمار ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کہا تھا اس کے متعلق انہیں بتایا تو ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے میری آواز تم سب سے زیادہ بلند ہوتی ہے، لہذا میں (اس آیت کے مطابق) جہنمیوں میں سے ہوں، سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں (ایسے نہیں) بلکہ وہ تو اہل جنت میں سے ہے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (188، 187 / 219)»

قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (188)
--. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ذکر
حدیث نمبر: 6212
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ نزلت سورة الجمعة فلما نزلت [وآخرين منهم لما يلحقوا بهم] قالوا: من هؤلاء يا رسول الله؟ قال: وفينا سلمان الفارسي قال: فوضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على سلمان ثم قال: «لو كان الإيمان عند الثريا لناله رجال من هؤلاء» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَزَلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَلَمَّا نَزَلَتْ [وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يلْحقُوا بهم] قَالُوا: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ: فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ: «لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رجالٌ من هَؤُلَاءِ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب سورۂ جمعہ نازل ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، جب یہ آیت (وَاخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ) نازل ہوئی تو ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ان سے کون لوگ مراد ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان موجود تھے، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلمان رضی اللہ عنہ پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا: اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تو تب بھی ان لوگوں میں سے کچھ حضرات اس تک پہنچ جائیں گے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4897) و مسلم (231/ 2546)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں میں محبوب ہونے کی دعا
حدیث نمبر: 6213
Save to word اعراب
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم حبب عبيدك هذا» يعني ابا هريرة «وامه إلى عبادك المؤمنين وحبب إليهم المؤمنين» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا» يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ «وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ وَحَبِّبْ إِليهم الْمُؤمنِينَ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اپنے اس بندے یعنی ابوہریرہ اور ان کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے اور مومنوں کو ان کا محبوب بنا دے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (158/ 2491)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. فقرائے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ناراض کرنے کا مطلب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی
حدیث نمبر: 6214
Save to word اعراب
وعن عائذ بن عمرو ان ابا سفيان اتى على سلمان وصهيب وبلال في نفر فقالوا: ما اخذت سيوف الله من عنق عدو الله ماخذها. فقال ابو بكر: اتقولون هذا لشيخ قريش وسيدهم؟ فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره فقال: يا ابا بكر لعلك اغضبتهم لئن كنت اغضبتهم لقد اغضبت ربك فاتاهم فقال: يا إخوتاه اغضبتكم قالوا: لا يغفر الله لك يا اخي. رواه مسلم وَعَن عَائِذ بن عَمْرو أَن أَبَا سُفْيَان أَتَى عَلَى سَلْمَانَ وَصُهَيْبٍ وَبِلَالٍ فِي نَفَرٍ فَقَالُوا: مَا أَخَذَتْ سُيُوفُ اللَّهِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللَّهِ مَأْخَذَهَا. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتَقُولُونَ هَذَا لِشَيْخِ قُرَيْشٍ وَسَيِّدِهِمْ؟ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ لَعَلَّكَ أَغْضَبْتَهُمْ لَئِنْ كُنْتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّكَ فَأَتَاهُمْ فَقَالَ: يَا إِخْوَتَاهْ أَغْضَبْتُكُمْ قَالُوا: لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَخِي. رَوَاهُ مُسلم
عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ ابوسفیان سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اس وقت اور صحابہ کرام بھی موجود تھے، انہوں نے کہا: اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن کی گردن سے اپنا حق وصول ن��یں کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم ایسی بات قریش کے معتبر اور سردار شخص کے بارے میں کہتے ہو؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر! شاید کہ تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے، اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا۔ وہ ان کے پاس آئے اور کہا: بھائیو! کیا میں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بھائی! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (170/ 2504)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی اور دشمنی نفاق کی نشانی ہے
حدیث نمبر: 6215
Save to word اعراب
وعن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «آية الإيمان حب الانصار وآية النفاق بغض الانصار» . متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار سے محبت علامت ایمان ہے، اور عداوت انصار علامت نفاق ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3784) و مسلم (128/ 74)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت اور دشمنی اللہ تعالیٰ سے محبت اور دشمنی کی نشانی ہے
حدیث نمبر: 6216
Save to word اعراب
وعن البراء قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الانصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يبغضهم إلا منافق فمن احبهم احبه الله ومن ابغضهم ابغضه الله» . متفق عليه وَعَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يَبْغَضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: انصار سے صرف مومن شخص ہی محبت کرتا ہے جبکہ انصار سے صرف منافق شخص ہی عداوت رکھتا ہے، چنانچہ جس نے ان سے محبت کی تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس نے ان سے عداوت کی تو اللہ اس سے عداوت کرے گا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3783) و مسلم (129/ 75)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا مال و دولت کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت پر راضی ہونا
حدیث نمبر: 6217
Save to word اعراب
وعن انس قال: إن ناسا من الانصار قالوا حين افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من اموال هوازن ما افاء فطفق يعطي رجالا من قريش المائة من الإبل فقالوا: يغفر الله لرسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي قريشا ويدعنا وسيوفنا تقطر من دمائهم فحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بمقالتهم فارسل إلى الانصار فجمعهم في قبة من ادم ولم يدع معهم احدا غيرهم فلما اجتمعوا جاءهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما كان حديث بلغني عنكم؟» فقال فقهاؤهم: اما ذوو راينا يا رسول الله فلم يقولوا شيئا واما اناس منا حديثة اسنانهم قالوا: يغفر الله لرسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي قريشا ويدع الانصار وسيوفنا تقطر من دمائهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني اعطي رجالا حديثي عهد بكفر اتالفهم اما ترضون ان يذهب الناس بالاموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله صلى الله عليه وسلم» . قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا. متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَالُوا حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ فَطَفِقَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَدَعُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ فَحَدَّثَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَقَالَتِهِمْ فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مَنْ أَدَمٍ وَلَمْ يَدْعُ مَعَهُمْ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ: «مَا كَانَ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟» فَقَالَ فُقَهَاؤُهُمْ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَدَعُ الْأَنْصَارَ وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» . قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قد رَضِينَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب اللہ نے اپنے رسول صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہوازن قبیلے کے اموال میں سے غنیمت عطا فرمائی اور آپ قریش کے (نو مسلم) افراد کو سو اونٹ دینے لگے تو انصار کے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مغفرت فرمائے، آپ قریشیوں کو تو عطا فرما رہے ہیں جبکہ ہمیں چھوڑ رہے ہیں، اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ابھی تک ٹپک رہا ہے، ان کی یہ گفتگو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتائی گئی تو آپ نے انصار کو بلا بھیجا اور انہیں چمڑے کے ایک خیمے میں جمع کیا اور آپ نے ان کے علاوہ کسی اور کو وہاں نہ بلایا، جب وہ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمہارے متعلق مجھے کیا خبر پہنچی ہے؟ ان (انصار) کے سمجھ دار لوگوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہمارے سنجیدہ لوگوں نے تو کوئی بات نہیں کی، البتہ ہمارے چند نو عمر لڑکوں نے کہا ہے: اللہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو معاف فرمائے کہ وہ قریشیوں کو دے رہے ہیں اور انصار کو چھوڑ رہے ہیں، جبکہ ہماری تلواروں سے ان (قریشیوں) کا خون ٹپک رہا ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے نو مسلموں کو ان کی تالیف قلبی کے لیے دیا ہے، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ لوگ تو مال و دولت لے کر واپس جائیں اور تم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساتھ لے کر اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا، کیوں نہیں، اللہ کے رسول! ہم اس پر راضی ہیں۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3147) و مسلم (132/ 1059)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
حدیث نمبر: 6218
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لولا الهجرة لكنت امرءا من الانصار ولو سلك الناس واديا وسلكت الانصار واديا او شعبا لسلكت وادي الانصار وشعبها والانصار شعار والناس دثار إنكم سترون بعدي اثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَءًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وشعبها وَالْأَنْصَار شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ایک آدمی ہوتا، اگر سارے لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا، انصار استر ہیں جبکہ باقی لوگ اوپر کا کپڑا ہیں، بے شک تم لوگ میرے بعد ترجیح دیکھو گے (کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی) تم صبر کرنا حتیٰ کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4330) و مسلم (139/ 1061)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    20    21    22    23    24    25    26    27    28    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.