مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب المناقب
--. فرمان نبوی کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں، رضی اللہ عنہما
حدیث نمبر: 6169
Save to word اعراب
وعن يعلى بن مرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حسين مني وانا من حسين احب الله من احب حسينا حسين سبط من الاسباط» رواه الترمذي وَعَن يعلى بن مرَّة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبَطٌ مِنَ الأسباط» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو شخص حسین سے محبت کرتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرے اور حسین میری اولاد سے ہیں۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3775 وقال: حسن)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت
حدیث نمبر: 6170
Save to word اعراب
وعن علي رضي الله عنه قال: الحسن اشبه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين الصدر إلى الراس والحسين اشبه النبي صلى الله عليه وسلم ما كان اسفل من ذلك. رواه الترمذي وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: الْحَسَنُ أَشْبَهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ أَسْفَل من ذَلِك. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں جبکہ حسین رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس سے نچلے حصے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3779 وقال: حسن غريب)
٭ فيه أبو إسحاق السبيعي: مدلس و عنعن.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. حضرت فاطمہ جنتی عورتوں کی اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے جونوں کے سردار
حدیث نمبر: 6171
Save to word اعراب
وعن حذيفة قال: قلت لامي: دعيني آتي النبي صلى الله عليه وسلم فاصلي معه المغرب واساله ان يستغفر لي ولك فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فصليت معه المغرب فصلى حتى صلى العشاء ثم انفتل فتبعته فسمع صوتي فقال: «من هذا؟ حذيفة؟» قلت: نعم. قال: «ما حاجتك؟ غفر الله لك ولامك إن هذا ملك لم ينزل الارض قط قبل هذه الليلة استاذن ربه ان يسلم علي ويبشرني بان فاطمة سيدة نساء اهل الجنة وان الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة» رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن حُذَيْفَة قَالَ: قُلْتُ لِأُمِّي: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّي مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ فَسَمِعَ صَوْتِي فَقَالَ: «مَنْ هَذَا؟ حُذَيْفَةُ؟» قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: «مَا حَاجَتُكَ؟ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكِ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے چھوڑ دیں کہ میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کروں، اور آپ سے درخواست کروں کہ آپ تمہارے لیے اور میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی، آپ (نفل) نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے نماز عشاء ادا کی، پھر آپ واپس گھر جانے لگے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل دیا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہے؟ کیا حذیفہ ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فرمائے، کیا کام ہے؟ (پھر فرمایا) یہ ایک فرشتہ ہے، جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے بشارت سنائے کہ فاطمہ اہل جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔ اور حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3781)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. سواری اچھی ہے تو سوار بھی تو اچھا ہے
حدیث نمبر: 6172
Save to word اعراب
وعن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم حاملا الحسن بن علي على عاتقه فقال رجل: نعم المركب ركبت يا غلام فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ونعم الراكب هو» . رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلًا الْحَسَنَ بْنَ عليٍّ على عَاتِقه فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو کسی آدمی نے کہا: اے لڑکے! کیا خوب سواری ہے جس پر تو سوار ہے! نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سوار بھی کیا خوب ہے! اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3784 وقال: حسن صحيح)
٭ فيه زمعة بن صالح: ضعيف، و للحديث شواھد ضعيفة.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو فوقیت
حدیث نمبر: 6173
Save to word اعراب
وعن عمر رضي الله عنه انه فرض لاسامة في ثلاثة آلاف وخمسمائة وفرض لعبد الله بن عمر في ثلاثة آلاف. فقال عبد الله بن عمر لابيه: لم فضلت اسامة علي؟ فو الله ما سبقني إلى مشهد. قال: لان زيدا كان احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من ابيك وكان اسامة احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك فآثرت حب رسول الله صلى الله عليه وسلم على حبي. رواه الترمذي وَعَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ فَرَضَ لِأُسَامَةَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ وَخَمْسِمِائَةٍ وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لِأَبِيهِ: لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَة عَليّ؟ فو الله مَا سَبَقَنِي إِلَى مَشْهَدٍ. قَالَ: لِأَنَّ زَيْدًا كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِيكَ وَكَانَ أُسَامَةُ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ فَآثَرْتُ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حبي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کے لیے ساڑھے تین ہزار وظیفہ مقرر کیا، اور (اپنے بیٹے) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لیے تین ہزار وظیفہ مقرر فرمایا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے عرض کیا: آپ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو مجھ پر کیوں فوقیت دی ہے؟ اللہ کی قسم! انہوں نے کسی معرکے میں مجھ سے سبقت حاصل نہیں کی۔ انہوں نے فرمایا: اس لیے کہ زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تمہارے والد سے زیادہ محبوب تھے، اور اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تم سے زیادہ محبوب تھے لہذا میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی ہے۔ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه الترمذي (3813 وقال: حسن غريب)»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
--. حضرت زید رضی اللہ عنہ کا اپنے اقارب کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دینا
حدیث نمبر: 6174
Save to word اعراب
وعن جبلة بن حارثة قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله ابعث معي اخي زيدا. قال: «هو ذا فإن انطلق معك لم امنعه» قال زيد: يا رسول الله والله لا اختار عليك احدا. قال: فرايت راي اخي افضل من رايي. رواه الترمذي وَعَن جبلة بن حارثةَ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْعَثْ مَعِي أَخِي زَيْدًا. قَالَ: «هُوَ ذَا فَإِنِ انْطَلَقَ مَعَكَ لَمْ أَمْنَعْهُ» قَالَ زَيْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَا أَخْتَارُ عَلَيْكَ أَحَدًا. قَالَ: فَرَأَيْتُ رَأْيَ أَخِي أَفْضَلَ مِنْ رَأْيِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ حاضر ہے، اگر وہ تمارے ساتھ جانا چاہے تو میں اسے منع نہیں کروں گا۔ زید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا: میں نے اپنے بھائی کی رائے کو اپنی رائے سے افضل پایا۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه الترمذي (3815 وقال: حسن غريب)
٭ إسماعيل بن أبي خالد مدلس و عنعن و للحديث شواھد.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. مرض الموت میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو دعا
حدیث نمبر: 6175
Save to word اعراب
وعن اسامة بن زيد قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم هبطت وهبط الناس المدينة فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اصمت فلم يتكلم فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع علي يديه ويرفعهما فاعرف انه يدعو لي. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَبَطْتُ وَهَبَطَ النَّاسُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أُصْمِتَ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ عَليّ يَدَيْهِ وَيَرْفَعُهُمَا فَأَعْرِفُ أَنَّهُ يَدْعُو لِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (بیماری کی وجہ سے) ضعیف ہو گئے تو میں نے اور صحابہ کرام نے مدینہ میں رہائش اختیار کر لی، چنانچہ میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ خاموش تھے اور کسی سے کوئی بات نہیں کر رہے تھے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ پر اپنے ہاتھ مبارک رکھتے اور انہیں اٹھا لیتے میں نے جان لیا کہ آپ میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3817)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی محبت
حدیث نمبر: 6176
Save to word اعراب
وعن عائشة قالت: اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان ينحي مخاط اسامة. قالت عائشة: دعني حتى اكون انا الذي افعل. قال: «يا عائشة احبيه فإني احبه» . رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَحِّي مُخَاطَ أُسَامَةَ. قَالَتْ عَائِشَةُ: دَعْنِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ. قَالَ: «يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی ناک صاف کرنا چاہی تو عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے اجازت فرمائیں میں صاف کر دیتی ہوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ اس سے محبت کیا کرو کیونکہ اس سے میں محبت کرتا ہوں۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3818 وقال: حسن غريب)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ترجیح دینا
حدیث نمبر: 6177
Save to word اعراب
وعن اسامة قال: كنت جالسا إذ جاء علي والعباس يستاذنان فقالا لاسامة: استاذن لنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله علي والعباس يستاذنان. فقال: «اتدري ما جاء بهما؟» قلت: لا. قال: «لكني ادري فاذن لهما» فدخلا فقالا: يا رسول الله جئناك نسالك اي اهلك احب إليك؟ قال: «فاطمة بنت محمد» فقالا: ما جئناك نسالك عن اهلك قال: احب اهلي إلي من قد انعم الله عليه وانعمت عليه: اسامة بن زيد قالا: ثم من؟ قال: «ثم علي بن ابي طالب» فقال العباس: يا رسول الله جعلت عمك آخرهم؟ قال: «إن عليا سبقك بالهجرة» . رواه الترمذي وذكر ان عم الرجل صنو ابيه في «كتاب الزكاة» وَعَن أُسَامَة قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يستأذنان فَقَالَا لِأُسَامَةَ: اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ الله عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ. فَقَالَ: «أَتَدْرِي مَا جَاءَ بهما؟» قلت: لَا. قَالَ: «لكني أَدْرِي فَأذن لَهما» فدخلا فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: «فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ» فَقَالَا: مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ قَالَ: أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ: أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ» فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَهُمْ؟ قَالَ: «إِنَّ عَلِيًّا سَبَقَكَ بِالْهِجْرَةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَذَكَرَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ فِي «كتاب الزَّكَاة»
اسامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں (باب رسالت پر) بیٹھا ہوا تھا کہ علی اور عباس رضی اللہ عنہ اجازت طلب کرنے کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہمیں اجازت لے دیں، میں نے (اندر جا کر) عرض کیا، اللہ کے رسول! علی اور عباس رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں جانتا ہوں، ان دونوں کو اجازت دے دو۔ وہ دونوں اندر آئے تو عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں یہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کو اپنے اہل خانہ میں سے کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ بنت محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم)۔ انہوں نے عرض کیا: ہم آپ کی خدمت میں آپ کے اہل خانہ کے متعلق پوچھنے نہیں آئے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے اہل (یعنی مردوں) میں سے وہ شخص مجھے زیادہ محبوب ہے جس پر اللہ نے انعام فرمایا اور میں نے انعام کیا، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ۔ انہوں نے عرض کیا، پھر کون؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا کو ان سے مؤخر کر دیا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے پہلے ہجرت کی ہے۔ ترمذی۔ اور یہ بات: آدمی کا چچا اس کے والد کی مانند ہوتا ہے۔ کتاب الزکوۃ میں گزر چکی ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3819 وقال: حسن)
٭ حديث ’’ان عم الرجل صنو أبيه‘‘ تقدم (6147) و لم أجده في کتاب الزکاة.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے پیار
حدیث نمبر: 6178
Save to word اعراب
عن عقبة بن الحارث قال: صلى ابو بكر العصر ثم خرج يمشي ومعه علي فراى الحسن يلعب مع الصبيان فحمله على عاتقه. وقال: بابي شبيه بالنبي ليس شبيها بعلي وعلي يضحك. رواه البخاري عَن عقبةَ بن الْحَارِث قَالَ: صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الْعَصْرَ ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي وَمَعَهُ عَلِيٌّ فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ. وَقَالَ: بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَيْسَ شَبِيهًا بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز عصر پڑھی، پھر باہر نکلے تو علی رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ چل رہے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کو بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھا تو انہیں اپنے کندھے پر اٹھا لیا، اور فرمایا: میرے والد قربان ہوں، اس کی نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مشابہت ہے، علی رضی اللہ عنہ سے مشابہت نہیں، (یہ بات سن کر) علی رضی اللہ عنہ مسکرا دیئے۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (3750)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.