وعن اسامة بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان ياخذه والحسن فيقول: «اللهم احبهما فإني احبهما» وفي رواية: قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ياخذني فيقعدني على فخذه ويقعد الحسن بن علي على فخذه الاخرى ثم يضمهما ثم يقول: «اللهم ارحمهما فإني ارحمهما» . رواه البخاري وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُهُ وَالْحَسَنَ فَيَقُولُ: «اللَّهُمَّ أَحِبَّهُمَا فَإِنِّي أُحبُّهما» وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُنِي فَيُقْعِدُنِي عَلَى فَخِذِهِ وَيُقْعِدُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى فَخِذِهِ الْأُخْرَى ثُمَّ يَضُمُّهُمَا ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّي أرحمُهما» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ مجھے اور حسن کو پکڑ کر فرماتے: ”اے اللہ! ان سے محبت فرما کیونکہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے تھے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو اپنی دوسری ران پر بٹھا لیتے پھر انہیں ملا کر فرماتے: ”اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت و رحمت فرماتا ہوں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3735) و الرواية الثانية، رواها البخاري (6003)»
وعن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا وامر عليهم اسامة بن زيد فطعن بعض الناس في إمارته فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن كنتم تطعنون في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة ابيه من قبل وايم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان لمن احب الناس إلي وإن هذا لمن احب الناس إلي بعده» متفق عليه وفي رواية لمسلم نحوه وفي آخره: «اوصيكم به فإنه من صالحيكم» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطَعَنَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِمَارَتِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ وَأَيْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ» مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ نَحْوُهُ وَفِي آخِره: «أوصيكم بِهِ فَإِنَّهُ من صالحيكم»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا تو اس پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا، کچھ لوگوں نے ان کی امارت کے بارے میں اعتراض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے والد کی امارت کےبارے میں بھی اعتراض کر چکے ہو۔ اللہ کی قسم! بلاشبہ وہ امارت کے زیادہ لائق تھا اور وہ تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھا اور اس کے بعد یہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔ “ اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی اسی طرح ہے، اور اس کے آخر میں ہے: ”میں اس کے متعلق تمہیں وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے صالحین میں سے ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3730) و مسلم (63/ 2426 و الرواية الثانية: 64/ 2426)»
وعنه قال: إن زيد بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد حتى نزل القرآن [ادعوهم لآبائهم] متفق عليه وذكر حديث البراء قال لعلي: «انت مني» في «باب بلوغ الصغير وحضانته» وَعَنْهُ قَالَ: إِنَّ زَيْدٍ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نزل الْقُرْآن [أُدعوهم لِآبَائِهِمْ] مُتَّفق عَلَيْهِ وَذكر حَدِيث الْبَراء قَالَ لعليّ: «أَنْتَ مِنِّي» فِي «بَابِ بُلُوغِ الصَّغِيرِ وَحَضَانَتِهِ»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کی اس آیت ”ان کو ان کے آباء کے نام سے بلاؤ۔ “ کے نازل ہونے تک ہم زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔ اور براء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ((أنت منی)) باب بلوغ الصغیر و حضانتہ میں ذکر ہو چکی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4782) و مسلم (62/ 2425) حديث البراء تقدم (3377)»
عن جابر قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول: يا ايها الناس إني تركت فيكم ما إن اخذتم به لن تضلوا: كتاب الله وعترتي اهل بيتي. رواه الترمذي عَنْ جَابِرٍ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ وعترتي أهل بيتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے روز آپ کی اونٹنی قصواء پر خطاب فرماتے ہوئے دیکھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگو! میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے جب تک تم اسے تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے، وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3786 و قال: غريب حسن) ٭ زيد بن الحسن ضعيف و حديث مسلم (2408) و ابن ماجه (1558) يغني عنه.»
وعن زيد بن ارقم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي احدهما اعظم من الآخر: كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الارض وعترتي اهل بيتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما. رواه الترمذي وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ: كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم اس کے ساتھ تمسک اختیار رکھو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ان میں سے ایک دوسری سے عظیم تر ہے، اللہ کی کتاب جو کہ ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف دراز کی گئی ہے، اور میری عترت اہل بیت، یہ دونوں الگ نہیں ہوں گے حتیٰ کہ حوض (کوثر) پر میرے پاس آئیں گے۔ دیکھو کہ تم ان دونوں کے بارے میں میری کیسی جانشینی نبھاتے ہو۔ “ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3788 وقال: حسن غريب) انظر الحديث 111 ص 6، انوار الصحيفه ص 331»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعلي وفاطمة والحسن والحسين: «انا حرب لمن حاربهم وسلم لمن سالمهم» . رواه الترمذي وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ: «أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ”جس نے ان سے لڑائی کی میں اس سے لڑنے والا ہوں، اور جس نے ان سے مصالحت کی میں اس سے مصالحت کرنے والا ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3870 و قال: غريب) [و ابن ماجه (145)] ٭ صبيح مولي أم سلمة: لم يوثقه غير ابن حبان.»
وعن جميع بن عمير قال: دخلت مع عمتي على عائشة فسالت: اي الناس كان احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: فاطمة. فقيل: من الرجال؟ قالت: زوجها إن كان ما علمت صواما قواما. رواه الترمذي وَعَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلْتُ: أَيُّ النَّاسِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: فَاطِمَةُ. فَقِيلَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ: زَوْجُهَا إِنْ كَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جمیع بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اپنی پھوپھی کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی؟ انہوں نے فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہ سے، پوچھا گیا: مردوں میں سے؟ انہوں نے فرمایا: ان کے شوہر (علی رضی اللہ عنہ) سے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3874 وقال: حسن غريب) ٭ جميع بن عمير ضعيف ضعفه الجمھور و لحديثه شواھد ضعيفة عند الترمذي (3868) وغيره.»
إلا الجملة الاخيرة فصحيحة) وعن عبد المطلب بن ربيعة ان العباس دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا وانا عنده فقال: «ما اغضبك؟» قال: يا رسول الله ما لنا ولقريش إذا تلاقوا بينهم تلاقوا بوجوه مبشرة وإذا لقونا لقونا بغير ذلك؟ فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمر وجهه ثم قال: «والذي نفسي بيده لا يدخل قلب رجل الإيمان حتى يحبكم لله ولرسوله» ثم قال: «يا ايها الناس من آذى عمي فقد آذاني فإنما عم الرجل صنو ابيه» رواه الترمذي. وفي «المصابيح» عن المطلب إِلَّا الْجُمْلَة الْأَخِيرَة فصحيحة) وَعَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ أَنَّ الْعَبَّاسَ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا وَأَنَا عِنْدَهُ فَقَالَ: «مَا أَغْضَبَكَ؟» قَالَ: يَا رَسُول الله مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَيْنَهُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوهٍ مُبْشَرَةٍ وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذَلِكَ؟ فَغَضِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتَّى يحبكم لله وَلِرَسُولِهِ» ثمَّ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ آذَى عَمِّي فَقَدْ آذَانِي فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَفِي «المصابيح» عَن الْمطلب
عبد المطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں اس وقت آپ کے پاس ہی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آپ کو کس نے ناراض کیا؟“ انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول! ہمارا (بنو ہاشم) اور باقی قریشیوں کا کیا معاملہ ہے؟ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں، اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اس طرح نہیں ملتے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی غصے میں آ گئے حتیٰ کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت کرے۔ “ پھر فرمایا: ”لوگو! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی، آدمی کا چچا اس کے باپ کے مانند ہوتا ہے۔ “ ترمذی، اور مصابیح میں مطلب سے مروی ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3758 وقال: حسن صحيح) ٭ فيه يزيد بن أبي زياد: ضعيف مشھور. إِلَّا الْجُمْلَة الْأَخِيرَة فصحيحة»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «العباس مني وانا منه» رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْعَبَّاسُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3759 وقال: حسن صحيح غريب) ٭ فيه عبد الأعلي الثعلبي: ضعيف.»
وعن بريدة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله تبارك وتعالى امرني بحب اربعة واخبرني انه يحبهم» . قيل يا رسول الله سمهم لنا قال: «علي منهم» يقول ذلك ثلاثا «وابو ذر والمقداد وسلمان امرني بحبهم واخبرني انه يحبهم» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريبوَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَمرنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ» . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِّهِمْ لَنَا قَالَ: «عَلِيٌّ مِنْهُمْ» يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثًا «وَأَبُو ذَرٍّ وَالْمِقْدَادُ وَسَلْمَانُ أَمرنِي بحبِّهم وَأَخْبرنِي أَنه يحبُّهم» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے چار اشخاص سے محبت کرنے کا مجھے حکم فرمایا ہے، اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ “ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ہمیں ان کے نام بتا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”علی ان میں سے ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار ان کا نام لیا، ”(باقی) ابوذر، مقداد اور سلمان ہیں، اس نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3762) و رزين (لم أجده) ٭ فيه عبد الوھاب بن عطاء مدلس و عنعن و روي عن ابن معين بأنه قال: ’’ھذا موضوع و عبد الوھاب: لم يقل فيه حدثنا ثور و لعله دلّس فيه وھو ثقة‘‘ و فيه علة أخري. وَزِيَادَة رزين مُنكرَة.»