عن انس قال: خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابن ثمان سنين خدمته عشر سنين فما لامني على شيء قط اتى فيه على يدي فإن لامني لائم من اهله قال: «دعوه فإنه لو قضي شيء كان» . هذا لفظ «المصابيح» وروى البيهقي في «شعب الإيمان» . مع تغيير يسير عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ خَدَمْتُهُ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا لَامَنِي عَلَى شَيْءٍ قَطُّ أَتَى فِيهِ عَلَى يَدَيَّ فَإِنْ لَامَنِي لَائِمٌ مِنْ أَهْلِهِ قَالَ: «دَعُوهُ فَإِنَّهُ لَوْ قُضِيَ شَيْءٌ كَانَ» . هَذَا لَفَظُ «الْمَصَابِيحِ» وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» . مَعَ تَغْيِيرٍ يَسِيرٍ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں آٹھ برس کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لیے حاضر ہوا اور دس سال آپ کی خدمت کی، آپ نے اس عرصے میں میرے ہاتھوں ہونے والے کسی نقصان پر مجھے ملامت نہیں کی، اگر آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”اسے چھوڑ دو، کیونکہ جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ “ یہ الفاظِ حدیث مصابیح کے ہیں، اور امام بیہقی نے کچھ تبدیلی کے ساتھ شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ صحیح، رواہ فی شرح السنہ و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، ذکره البغوي في المصابيح السنة (57/4. 58 ح 4538) و رواھ البيھقي في شعب الإيمان (8070 و کتاب القدر: 212 وسنده صحيح) و له شواھد عند أحمد (3/ 231 و ابن سعد (7/ 17) و البخاري (2768، 6038، 6911) و مسلم (2309) و الخطيب في تاريخ بغداد (3/ 303) و ابن حبان (الموارد: 1816) وغيرھم. ٭ ورواه الخرائطي في مکارم الأخلاق (71)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا ولا سخابا في الاسواق ولا يجزي بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويصفح. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا سَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طبعاً فحش گو تھے نہ تکلفاً فحش گو تھے، آپ بازاروں میں شور و غل کرتے تھے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درگزر فرماتے تھے، اور معاف فرما دیتے تھے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2016 وقال: حسن صحيح)»
وعن انس يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان يعود المريض ويتبع الجنازة ويجيب دعوة المملوك ويركب الحمار لقد رايته يوم خيبر على حمار خطامه ليف. رواه ابن ماجه والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَنَسٍ يُحَدِّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كانَ يعودُ المريضَ وَيتبع الْجِنَازَة ويجيب دَعْوَة الْمَمْلُوك ويركب الْحمار لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَوْمَ خَيْبَرَ عَلَى حِمَارٍ خِطَامُهُ لِيفٌ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
انس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ بیماروں کی عیادت کرتے تھے، جنازوں میں شریک ہوتے تھے، غلاموں کی دعوت قبول کرتے تھے، اور گدھے پر سواری کرتے تھے، خیبر کے دن میں نے آپ کو گدھے پر دیکھا جس کی لگام کھجور کے پتوں کی تھی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (4178، 2296) و البيھقي في شعب الإيمان (8190. 8191) [و الترمذي (1017 وقال: غريب، لا نعرفه إلا من حديث مسلم عن أنس و مسلم الأعور يضعف... إلخ)] ٭ مسلم بن کيسان الأعور: ضعيف.»
وعن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخصف نعله ويخيط ثوبه ويعمل في بيته كما يعمل احدكم في بيته وقالت: كان بشرا من البشر يفلي ثوبه ويحلب شاته ويخدم نفسه. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْصِفُ نَعْلَهُ وَيَخِيطُ ثَوْبَهُ وَيَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ كَمَا يَعْمَلُ أَحَدُكُمْ فِي بَيْتِهِ وَقَالَتْ: كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ يَفْلِي ثَوْبَهُ وَيَحْلُبُ شَاتَهُ وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا جوتا مرمت کرتے تھے، اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں تمہاری طرح ہی کام کرتے تھے۔ اور انہوں نے فرمایا: آپ بھی ایک انسان تھے، آپ اپنے کپڑے میں جوئیں دیکھ لیا کرتے تھے، اپنی بکری کا دودھ خود دھوتے تھے اور اپنے ذاتی کام خود کیا کرتے تھے۔ حسن، رواہ الترمذی فی الشمائل و البخاری فی الأدب المفرد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي [في الشمائل (341) والبخاري في الأدب المفرد (541 وسنده حسن)] ٭ الشطر الأول إلي ’’في بيته‘‘ رواه أحمد (6/ 106، 121، 167، 260 أيضًا) و فيه علة عند أحمد (241/6) و للحديث شواھد عند أحمد (6/ 256) وغيره.»
وعن خار ة بن زيد بن ثابت قال: دخل نفر على زيد بن ثابت فقالوا له: حدثنا احاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كنت جاره فكان إذا نزل الوحي بعث إلي فكتبته له فكان إذا ذكرنا الدنيا ذكرها معنا وإذا ذكرنا الآخرة ذكرها معنا وإذا ذكرنا الطعام ذكره معنا فكل هذا احدثكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه الترمذي وَعَنْ خَارِ َةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوا لَهُ: حَدِّثْنَا أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُنْتُ جَارَهُ فَكَانَ إِذَا نزل الْوَحْيُ بَعَثَ إِلَيَّ فَكَتَبْتُهُ لَهُ فَكَانَ إِذَا ذَكَرْنَا الدُّنْيَا ذَكَرَهَا مَعَنَا وَإِذَا ذَكَرْنَا الْآخِرَةَ ذَكَرَهَا مَعَنَا وَإِذَا ذَكَرْنَا الطَّعَامَ ذَكَرَهُ مَعَنَا فَكُلُّ هَذَا أُحَدِّثُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
خارجہ بن زید بن ثابت بیان کرتے ہیں، کچھ افراد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا، آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سناؤ، انہوں نے کہا، میں آپ کا پڑوسی تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ مجھے بلاتے اور میں وحی کو لکھ دیتا تھا، جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے تھے، جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے تھے، اور جب ہم کھانے کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ کھانے کا ذکر فرماتے تھے۔ میں یہ ساری باتیں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کر رہا ہوں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی فی الشمائل و فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (في الشمائل:342) والبغوي في شرح السنة (13/ 245 ح 3679)] ٭ فيه سليمان بن خارجة: مجھول الحال.»
وعن انس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا صافح الرجل لم ينزع يده من يده حتى يكون هو الذي ينزع يده ولا يصرف وجهه عن وجهه حتى يكون هو الذي يصرف وجهه عن وجهه ولم ير مقدما ركبتيه بين يدي جليس له. رواه الترمذي وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَافَحَ الرَّجُلَ لَمْ يَنْزِعْ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُ يَدَهُ وَلَا يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَن وَجهه وَلم يُرَ مقدِّماً رُكْبَتَيْهِ بَين يَدي جليس لَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آدمی سے مصافحہ فرماتے تھے تو آپ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے حتی کہ وہ آدمی خود اپنا ہاتھ چھڑا لیتا تھا، آپ اپنا چہرہ مبارک (توجہ) اس شخص سے نہیں ہٹاتے تھے حتی کہ وہ شخص خود اپنا چہرہ آپ کے چہرۂ مبارک سے ہٹا لیتا (کسی اور طرف متوجہ کر لیتا) اور آپ کو مجلس میں اپنے ہم نشین سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2490 و قال: غريب) [و ابن ماجه (3716)] ٭ زيد العمي ضعيف و تلميذه لين و له شاھد ضعيف عند أبي داود (4794) وغيره.»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يدخر شيئا لغد. رواه الترمذي وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا ذخیرہ نہیں کیا کرتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2362 وقال: غريب)»
وعن جابر بن سمرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم طويل الصمت. رواه في «شرح السنة» وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلَ الصَّمْتِ. رَوَاهُ فِي «شرح السّنة»
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ تر خاموش رہا کرتے تھے، (بلا ضرورت تکلم نہیں فرماتے تھے)۔ حسن، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه البغوي في شرح السنة (13/ 256 ح 3695، و في الأنوار في شمائل النبي المختار بتحقيقي: 331)»
وعن جابر قال: كان في كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم ترتيل وترسيل. رواه ابو داود وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ فِي كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْتِيلٌ وَتَرْسِيلٌ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں ترتیل اور ٹھہراؤ تھا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4838) ٭ الشيخ، الراوي عن جابر رضي الله عنه: مجھول.»
وعن عائشة قالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسرد سردكم هذا ولكنه كان يتكلم بكلام بينه فصل يحفظه من جلس إليه. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ بَيْنَهُ فَصْلٌ يَحْفَظُهُ من جَلَسَ إِلَيْهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری طرح نہایت تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے، بلکہ آپ کا کلام الگ الگ ہوتا تھا، آپ کے پاس بیٹھنے والا اسے یاد کر لیتا تھا۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (3639 وقال: حسن صحيح)»