وعن ابن المنكدر ان سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم اخطا الجيش بارض الروم او اسر فانطلق هاربا يلتمس الجيش فإذا هو بالاسد. فقال: يا ابا الحارث انا مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم كان من امري كيت وكيت فاقبل الاسد له بصبصة حتى قام إلى جنبه كلما سمع صوتا اهوى إليه ثم اقبل يمشي إلى جنبه حتى بلغ الجيش ثم رجع الاسد. رواه في «شرح السنة» وَعَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ أَنَّ سَفِينَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطَأَ الْجَيْشَ بِأَرْضِ الرُّومِ أَوْ أُسِرَ فَانْطَلَقَ هَارِبًا يَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا هُوَ بِالْأَسَدِ. فَقَالَ: يَا أَبَا الْحَارِثِ أَنَا مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ أَمْرِي كَيْتَ وَكَيْتَ فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَهُ بَصْبَصَةٌ حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِهِ كُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَهْوَى إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِي إِلَى جَنْبِهِ حَتَّى بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ. رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ»
ابن منکدر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ رضی اللہ عنہ سرزمین روم میں لشکر سے بچھڑ گئے، یا انہیں قید کر لیا گیا، وہ لشکر کی تلاش میں دوڑنے لگے تو اچانک شیر سے سامنا ہو گیا، انہوں نے فرمایا: ابو الحارث (شیر کی کنیت)! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آزاد کردہ غلام ہوں، میرے ساتھ یہ یہ مسئلہ بنا ہے، شیر دم ہلاتا ہوا آپ کے سامنے آیا، حتیٰ کہ وہ آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، جب وہ کہیں سے (خوفناک) آواز سنتا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتا، پھر وہ ان کی طرف آ جاتا حتیٰ کہ وہ لشکر کے ساتھ جا ملے پھر شیر واپس چلا گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (13/ 313 ح 3732) [و صححه الحاکم (3/ 606) ووافقه الذهبي] ٭ محمد بن المنکدر لم يثبت سماعه من سفينة رضي الله عنه فالسند معلل.»
وعن ابي الجوزاء قال: قحط اهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت: انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ففعلوا فمطروا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق. رواه الدارمي وَعَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ قَالَ: قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: انْظُرُوا قبر النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فاجعلوا مِنْهُ كُوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ فَفَعَلُوا فَمُطِرُوا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
ابو الجوزاء بیان کرتے ہیں، مدینہ والے شدید قحط کا شکار ہو گئے تو انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف دیکھو (جاؤ) اور اس میں سے آسمان کی طرف کچھ سوراخ بنا دو حتیٰ کہ ان پر کوئی پردہ نہ ہو، انہوں نے ایسے ہی کیا تو ان پر خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ گھاس اگ آئی اونٹ اس قدر فربہ ہو گئے کہ وہ چربی سے پھول گئے اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 43. 44 ح 93) ٭ فيه عمرو بن مالک النکري، رواه عن أبي الجوزاء و قال ابن عدي: ’’يحدث عن أبي الجوزاء ھذا أيضًا عن ابن عباس قدر عشرة أحاديث غير محفوظة‘‘ (الکامل 401/1، نسخة أخري 2/ 108) و ھذا جرح خاص فالسند ضعيف معلل.»
وعن سعيد بن عبد العزيز قال: لما كان ايام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا ولم يقم ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبي صلى الله عليه وسلم. رواه الدارمي وَعَن سعيد بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ الْمَسْجِدَ وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
سعید بن عبد العزیز بیان کرتے ہیں، جب حرا کا واقعہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تین روز تک اذان ہوئی نہ نماز اور نہ ہی سعید بن مسیّب مسجد سے باہر نکل سکے، انہیں نماز کا وقت، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک سے آنے والی مبہم سی آواز سے معلوم ہوتا تھا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف ٭ فيه سعيد بن عبد العزيز: لم يثبت سماعه من سعيد بن المسيب رحمه الله.»
وعن ابي خلدة قال: قلت لابي العالية: سمع انس من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: خدمه عشر سنين ودعا له النبي صلى الله عليه وسلم وكان له بستان يحمل في كل سنة الفاكهة مرتين وكان فيها ريحان يجيء منه ريح المسك. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنْ أَبِي خَلْدَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي الْعَالِيَةِ: سَمِعَ أَنَسٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: خَدَمَهُ عَشْرَ سِنِينَ وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ لَهُ بُسْتَانٌ يَحْمِلُ فِي كُلِّ سَنَةٍ الْفَاكِهَةَ مَرَّتَيْنِ وَكَانَ فِيهَا رَيْحَانٌ يَجِيءُ مِنْهُ رِيحُ الْمِسْكِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابو خلدہ بیان کرتے ہیں، میں نے ابو العالیہ سے کہا، کیا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سال خدمت کی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی جس کی وجہ سے ان کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیا کرتا تھا، اور اس میں کستوری جیسی خوشبو آتی تھی۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3833) و أخطأ من ضعفه.»
عن عروة بن الزبير ان سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل خاصمته اروى بنت اويس إلى مروان بن الحكم وادعت انه اخذ شيئا من ارضها فقال سعيد انا كنت آخذ من ارضها شيئا بعد الذي سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من اخذ شبرا من الارض ظلما طوقه إلى سبع ارضين فقال له مروان لا اسالك بينة بعد هذا فقال اللهم إن كانت كاذبة فعم بصرها واقتلها في ارضها قال فما ماتت حتى ذهب بصرها ثم بينا هي تمشي في ارضها إذ وقعت في حفرة فماتت. متفق عليه وفي رواية لمسلم عن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر بمعناه وانه رآها عمياء تلتمس الجدر تقول: اصابتني دعوة سعيد وانها مرت على بئر في الدار التي خاصمته فوقعت فيها فكانت قبرها عَن عُرْوَة بن الزبير أَنَّ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ خاصمته أروى بنت أويس إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَادَّعَتْ أَنَّهُ أَخَذَ شَيْئًا مِنْ أَرْضِهَا فَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا كُنْتُ آخُذُ مِنْ أَرْضِهَا شَيْئًا بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وماذا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا طُوِّقَهُ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ لَا أَسْأَلُكَ بَيِّنَةً بَعْدَ هَذَا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِن كَانَت كَاذِبَة فَعم بَصَرَهَا وَاقْتُلْهَا فِي أَرْضِهَا قَالَ فَمَا مَاتَتْ حَتَّى ذهب بصرها ثمَّ بَينا هِيَ تَمْشِي فِي أَرْضِهَا إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِمَعْنَاهُ وَأَنَّهُ رَآهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدٍ وَأَنَّهَا مَرَّتْ على بئرٍ فِي الدَّار الَّتِي خاصمته فَوَقَعت فِيهَا فَكَانَت قبرها
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے متعلق ارویٰ بنت اوس نے مروان بن حکم کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری کچھ زمین حاصل کر لی ہے، سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث سن لینے کے بعد بھی ان کی زمین کے کچھ حصہ پر قبضہ کروں گا؟ مروان نے کہا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے بالشت بھر زمین ناحق حاصل کی تو اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ “ تب مروان نے کہا: اس کے بعد میں آپ سے کوئی ثبوت نہیں مانگتا۔ سعید نے دعا فرمائی: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے اندھی بنا دے اور اسے اس کی زمین میں موت دے۔ راوی بیان کرتے ہیں، جب وہ فوت ہوئی تو وہ اندھی ہو چکی تھی اور وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گری اور فوت ہو گئی۔ اور صحیح مسلم میں محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر سے اس کے ہم معنی روایت ہے کہ انہوں نے اسے بینائی سے محروم دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے دیکھا، اور وہ کہتی تھی: مجھے سعید کی بددعا لگ گئی اور وہ گھر کے اس کنویں کے پاس سے گزری جس کے متعلق اس نے ان (سعید رضی اللہ عنہ) سے مقدمہ کیا تھا، وہ اس میں گری اور وہی اس کی قبر بنی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3198) و مسلم (139، 136 / 1610)»
وعن ابن عمر ان عمر بعث جيشا وامر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب فجعل يصيح: يا امير المؤمنين لقينا عدونا فهزمونا فإذا بصائح يصيح: يا ساري الجبل. فاسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله تعالى رواه البيهقي في دلائل النبوةوَعَن ابْن عمر أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ فَبَيْنَمَا عُمَرُ يَخْطُبُ فَجَعَلَ يَصِيحُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقِيَنَا عَدُوُّنَا فَهَزَمُونَا فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: يَا سَارِيَ الْجَبَلَ. فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا إِلَى الْجَبَلِ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر روانہ کیا، اور ساریہ نامی شخص کو اس کا امیر مقرر کیا، اس اثنا میں کہ عمر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ زور سے کہنے لگے: ساریہ! پہاڑ کی طرف، پھر لشکر کی طرف سے ایک قاصد آیا تو اس نے کہا: امیر المومنین! ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست سے دوچار کر دیا تھا مگر اچانک کسی نے زور سے آواز دی: ساریہ! پہاڑ کو نہ چھوڑو۔ ہم نے اپنی پشتیں پہاڑ کی جانب کر لیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 380) ٭ فيه محمد بن عجلان مدلس و عنعن و له طرق عند ابن عساکر (تاريخ دمشق 22/ 18، 19) وغيره و کلھا ضعيفة و مرسلة، لا يصح منھا شئ و أخطأ من صححه أو حسنه!»
وعن نبيهة بن وهب ان كعبا دخل على عائشة فذكروا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال كعب: ما من يوم يطلع إلا نزل سبعون الفا من الملائكة حتى يحفوا بقبر رسول الله صلى الله عليه وسلم يضربون باجنحتهم ويصلون على رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا امسوا عرجوا وهبط مثلهم فصنعوا مثل ذلك حتى إذا انشقت عنه الارض خرج في سبعين الفا من الملائكة يزفونه. رواه الدارميوَعَنْ نُبَيْهَةَ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ كَعْبًا دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَعْبٌ: مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ حَتَّى يَحُفُّوا بِقَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُونَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ يَزُفُّونَهُ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
نُبیہہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب، عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اہل مجلس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کیا، تو کعب نے فرمایا: ہر روز ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں، وہ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، جب شام ہوتی ہے تو وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں، اور اتنے ہی فرشتے اور اتر آتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کرتے ہیں، حتیٰ کہ جب (روز قیامت) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر مبارک سے نکلیں گے تو آپ ستر ہزار فرشتوں کی معیت میں ہوں گے وہ آپ کو لے کر جلدی بھاگیں گے۔ رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (44/1 ح 95) ٭ في سماع نبيه بن وھب من کعب نظر و لم يدرک عائشة أيضًا فالسند منقطع.»
عن البراء قال: اول من قدم علينا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مصعب بن عمير وابن ام مكتوم فجعلا يقرآننا القرآن ثم جاء عمار وبلال وسعد ثم جاء عمر بن الخطاب في عشرين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم فما رايت اهل المدينة فرحوا بشيء فرحهم به حتى رايت الولائد والصبيان يقولون: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاء فما جاء حتى قرات: [سبح اسم ربك الاعلى] في سور مثلها من المفصل. رواه البخاريعَن الْبَراء قَالَ: أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَجَعَلَا يُقْرِآنِنَا الْقُرْآنَ ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَسَعْدٌ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَرِحُوا بِشَيْءٍ فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْوَلَائِدَ وَالصِّبْيَانَ يَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ فَمَا جَاءَ حَتَّى قرأتُ: [سبِّح اسْم ربِّك الْأَعْلَى] فِي سُوَرٍ مِثْلِهَا مِنَ الْمُفَصَّلِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے، انہوں نے ہمیں قرآن پڑھانا شروع کیا، پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہ آئے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیس صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف لائے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے مدینہ والوں کو کسی چیز پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا میں نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوش دیکھا، حتیٰ کہ میں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں اور بچوں کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا چکے ہیں، جب آپ تشریف لائے تو میں سورۂ الاعلی کے ساتھ مفصل سورتوں میں سے کئی سورتیں پڑھ چکا تھا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4941)»
وعن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر فقال: «إن عبدا خيره الله بين ان يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده» . فبكى ابو بكر قال: فديناك بآبائنا وامهاتنا فعجبنا له فقال الناس: نظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عبد خيره الله بين ان يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو يقول: فديناك بآبائنا وامهاتنا فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير وكان ابو بكر هو اعلمنا. متفق عليهوَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ» . فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ قَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتنَا فعجبنا لَهُ فَقَالَ النَّاس: نظرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهُوَ يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَير وَكَانَ أَبُو بكر هُوَ أعلمنَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ”اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو چاہے اپنے لیے پسند کر لے یا پھر وہ اس چیز کو اختیار کر لے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ “(یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، اور عرض کیا: ہمارے والدین آپ پر فدا ہوں! ہمیں ان کی اس حالت پر تعجب ہوا، لوگوں نے کہا: اس بزرگ کو دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بندے کے متعلق بتا رہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں پسند کر لے یا اس چیز کو پسند کر لے جو اس کے پاس ہے، اور وہ کہہ رہا ہے ہمارے والدین آپ پر فدا ہوں۔ چنانچہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ اس بات کو جاننے والے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3904) و مسلم (2/ 2382)»
وعن عقبة بن عامر قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على قتلى احد بعد ثماني سنين كالمودع للاحياء والاموات ثم طلع المنبر فقال: «إني بين ايديكم فرط وانا عليكم شهيد وإن موعدكم الحوض وإني لانظر إليه من مقامي هذا وإني قد اعطيت مفاتيح خزائن الارض وإني لست اخشى عليكم ان تشركوا بعدي ولكني اخشى عليكم الدنيا ان تنافسوها فيها» . وزاد بعضهم:: «فتقتتلوا فتهلكوا كما هلك من كان بلكم» . متفق عليهوَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أحد بعد ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: «إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ من مَقَامِي هَذَا وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بعدِي وَلَكِنِّي أخْشَى عَلَيْكُم الدُّنْيَا أَن تنافسوها فِيهَا» . وَزَادَ بَعْضُهُمْ:: «فَتَقْتَتِلُوا فَتَهْلِكُوا كَمَا هَلَكَ من كَانَ بلكُمْ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آٹھ سال بعد شہدائے احد پر ایسے نماز جنازہ ادا کی جیسے آپ زندوں اور فوت شدہ لوگوں سے رخصت ہو رہے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا، مجھ سے تمہاری ملاقات حوض پر ہو گی، میں اسے دیکھ رہا ہوں حالانکہ میں اپنی اس جگہ پر ہوں، اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں، مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، لیکن مجھے تمہارے متعلق دنیا کا خدشہ ہے کہ تم اس کے متعلق باہم سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے۔ “ اور بعض راویوں نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ”تم باہم لڑو گے اور تم بھی اسی طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4042) و مسلم (30/ 2296 و الزيادة له 31/ 2296)»