وعن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر فقال: «إن عبدا خيره الله بين ان يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده» . فبكى ابو بكر قال: فديناك بآبائنا وامهاتنا فعجبنا له فقال الناس: نظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عبد خيره الله بين ان يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو يقول: فديناك بآبائنا وامهاتنا فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير وكان ابو بكر هو اعلمنا. متفق عليهوَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ» . فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ قَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتنَا فعجبنا لَهُ فَقَالَ النَّاس: نظرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهُوَ يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَير وَكَانَ أَبُو بكر هُوَ أعلمنَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ”اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو چاہے اپنے لیے پسند کر لے یا پھر وہ اس چیز کو اختیار کر لے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ “(یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، اور عرض کیا: ہمارے والدین آپ پر فدا ہوں! ہمیں ان کی اس حالت پر تعجب ہوا، لوگوں نے کہا: اس بزرگ کو دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بندے کے متعلق بتا رہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں پسند کر لے یا اس چیز کو پسند کر لے جو اس کے پاس ہے، اور وہ کہہ رہا ہے ہمارے والدین آپ پر فدا ہوں۔ چنانچہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ اس بات کو جاننے والے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3904) و مسلم (2/ 2382)»