مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
--. غزوہ خندق کے موقع پر قریش مکہ کے بارے میں پیشگوئی
حدیث نمبر: 5879
Save to word اعراب
وعن سليمان بن صرد قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم حين اجلى الاحزاب عنه: «الآن نغزوهم ولا يغزونا نحن نسير إليهم» . رواه البخاري وَعَن سليمانَ بن صُرَد قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَجْلَى الْأَحْزَابَ عَنْهُ: «الْآنَ نَغْزُوهُمْ وَلَا يغزونا نَحن نسير إِلَيْهِم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب گروہ متفرق ہو گئے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے، اب ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4019. 4110)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. غزوہ بنی قریظہ
حدیث نمبر: 5880
Save to word اعراب
وعن عائشة قالت: لما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الخندق وضع السلاح واغتسل اتاه جبريل وهو ينفض راسه من الغبار فقال قد وضعت السلاح والله ما وضعته اخرج إليهم قال النبي صلى الله عليه وسلم فاين فاشار إلى بني قريظة فخرج النبي صلى الله عليه وسلم. متفق عليه وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ الخَنْدَق وضع السِّلاحَ واغتسل أَتاه جِبْرِيل وَهُوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُهُ اخْرُجْ إِلَيْهِمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَيْنَ فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ فَخَرَجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خندق سے واپس آئے، ہتھیار رکھ دیے اور غسل فرما لیا تو جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے، وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے، انہوں نے فرمایا: آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ابھی تک زیب تن کر رکھے ہیں، ان کی طرف چلیں۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کہاں؟ انہوں نے قریظہ کی طرف اشارہ فرمایا چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی طرف روانہ ہوئے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4117) و مسلم (65/ 1769)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. غزوہ بنی قریظہ میں جبرئیل علیہ السلام
حدیث نمبر: 5881
Save to word اعراب
وفي رواية للبخاري قال انس: كاني انظر إلى الغبار ساطعا في زقاق بني غنم موكب جبريل عليه السلام حين سار رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بني قريظة وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْغُبَارِ سَاطِعًا فِي زُقَاقِ بَنِيَ غَنْمٍ موكبَ جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَامُ حِينَ سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بني قُرَيْظَة
صحیح بخاری کی روایت میں ہے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، گویا میں بنو غنم کی گلیوں میں اٹھتی ہوئی غبار دیکھ رہا ہوں جو جبریل ؑ کے ساتھیوں کی وجہ سے اڑ رہی تھی، یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنو قریظہ کی طرف چلے تھے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4118)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. جب انگلیاں چشمہ بن گئیں
حدیث نمبر: 5882
Save to word اعراب
وعن جابر قال عطش الناس يوم الحديبية ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين يديه ركوة فتوضا منها ثم اقبل الناس نحوه قالوا: ليس عندنا ماء نتوضا به ونشرب إلا ما في ركوتك فوضع النبي صلى الله عليه وسلم يده في الركوة فجعل الماء يفور من بين اصابعه كامثال العيون قال فشربنا وتوضانا قيل لجابر كم كنتم قال لو كنا مائة الف لكفانا كنا خمس عشرة مائة. متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْهِ رِكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا ثُمَّ أَقْبَلَ النَّاسُ نَحْوَهُ قَالُوا: لَيْسَ عَنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ بِهِ وَنَشْرَبُ إِلَّا مَا فِي رِكْوَتِكَ فَوضَعَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَدَه فِي الرِّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَفُورُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ قَالَ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قِيلَ لِجَابِرٍ كَمْ كُنْتُمْ قَالَ لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو پیاس لگی، جبکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا، آپ نے اس سے وضو کیا، پھر لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے، اور عرض کیا، ہمارے پاس پانی نہیں جس سے ہم وضو کر سکیں اور پی سکیں، فقط وہی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا دست مبارک چ��اگل میں رکھا، اور آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی بہنے لگا، راوی بیان کرتے ہیں، ہم نے پانی پیا اور وضو کیا، جابر سے دریافت کیا گیا، اس وقت تمہاری تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے فرمایا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی ہمیں کافی ہوتا، البتہ ہم اس وقت پندرہ سو تھے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4152) و مسلم (73/ 1856)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. لعاب نبوی کی برکا ت
حدیث نمبر: 5883
Save to word اعراب
وعن البراء بن عازب قا ل: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اربع عشرة مائة يوم الحديبية والحديبية بئر فنزحناها فلم نترك فيها قطرة فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فاتاهافجلس على شفيرها ثم دعا بإناء من ماء فتوضا ثم مضمض ودعا ثم صبه فيها ثم قال: دعوها ساعة فارووا انفسهم وركابهم حتى ارتحلوا. رواه البخاري وَعَن الْبَراء بن عَازِب قا ل: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا فَلَمْ نَتْرُكْ فِيهَا قَطْرَةً فَبَلَغَ النبيَّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فأتاهافجلس عَلَى شَفِيرِهَا ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَضْمَضَ وَدَعَا ثُمَّ صَبَّهُ فِيهَا ثُمَّ قَالَ: دَعُوهَا سَاعَةً فَأَرْوَوْا أَنْفُسَهُمْ وَرِكَابَهُمْ حَتَّى ارتحلوا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، حدیبیہ کے روز ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چودہ سو کی تعداد میں تھے، حدیبیہ ایک کنواں تھا، ہم نے اس سے سارا پانی نکال لیا تھا اور اس میں ایک قطرہ تک نہیں چھوڑا تھا، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ وہاں تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے پانی کا ایک برتن منگایا، وضو فرمایا، پھر کلی کی، دعا کی، پھر اس کو اس (کنویں) میں انڈیل دیا، پھر فرمایا: کچھ دیر اسے رہنے دو۔ چنانچہ (اس کے بعد) انہوں نے خود پیا، اپنے جانوروں کو پلایا اور کوچ کرنے تک یہ (پینے، پلانے کا) سلسلہ جاری رہا۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4150)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. پانی میں برکت
حدیث نمبر: 5884
Save to word اعراب
وعن عوف عن ابي رجاء عن عمر بن حصين قا ل: كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم فاشتكى إليه الناس من العطش فنزل فدعا فلانا كان يسميه ابو رجاء ونسيه عوف ودعا عليا فقال: «اذهبا فابتغيا الماء» . فانطلقا فتلقيا امراة بين مزادتين او سطحتين من ماء فجاءا بهاإلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستنزلوهاعن بعيرها ودعا النبي صلى الله عليه وسلم بإناء ففرغ فيه من افواه المزادتين ونودي في الناس: اسقوا فاستقوا قال: فشربنا عطاشا اربعين رجلا حتى روينا فملانا كل قربة معنا وإداوة وايم الله لقد اقلع عنها وإنه ليخيل إلينا انها اشد ملئة منها حين ابتدا. متفق عليه وَعَن عَوْف عَن أبي رَجَاء عَن عمر بن حُصَيْن قا ل: كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ وَنَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا فَقَالَ: «اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ» . فَانْطَلَقَا فتلقيا امْرَأَة بَين مزادتين أَو سطحتين من مَاء فجاءا بهاإلى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فاستنزلوهاعن بَعِيرِهَا وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ: اسْقُوا فَاسْتَقَوْا قَالَ: فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أَقْلَعَ عَنْهَا وإنَّهُ ليُخيّل إِلينا أنّها أشدُّ ملئةً مِنْهَا حِين ابْتَدَأَ. مُتَّفق عَلَيْهِ
عوف ؒ ابورجاء سے اور وہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں نے آپ سے پیاس کی شکایت کی، آپ سواری سے نیچے اترے، اور آپ نے فلاں شخص کو آواز دی، ابورجاء نے اس شخص کا نام لیا تھا لیکن عوف اس کا نام بھول گئے، اور آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بھی بلایا اور فرمایا: دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو، وہ دونوں گئے اور پانی کی تلاش شروع کی، وہ چلتے گئے حتیٰ کہ وہ ایک عورت سے ملے جو پانی کے دو مشکیزے اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے اور خود ان کے درمیان بیٹھی جا رہی تھی، وہ دونوں اسے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آئے، انہوں نے اس کو اس کے اونٹ سے نیچے اتار لیا اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک برتن منگایا اور دونوں مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دیے، اور تمام لوگوں میں اعلان کرا دیا گیا کہ خود بھی پیو اور جانوروں کو بھی پلاؤ، راوی بیان کرتے ہیں، ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ہم نے اپنے تمام مشکیزے اور برتن بھی بھر لیے، اللہ کی قسم! جب ان سے پانی لینا بند کر دیا تو ہمیں ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اب ان میں پانی پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (344) و مسلم (312/ 682)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. درخت بھی آپ کے تابع ہو گئے
حدیث نمبر: 5885
Save to word اعراب
وعن جابر قال: سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزلنا واديا افيح فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته فلم ير شيئا يستتر به وإذا شجرتين بشاطئ الوادي فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى إحداهما فاخذ بغصن من اغصانها فقال انقادي علي بإذن الله فانقادت معه كالبعير المخشوش الذي يصانع قائده حتى اتى الشجرة الاخرى فاخذ بغصن من اغصانها فقال انقادي علي بإذن الله فانقادت معه كذلك حتى إذا كان بالمنصف مما بينهما قال التئما علي بإذن الله فالتامتا فجلست احدث نفسي فحانت مني لفتة فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا وإذا الشجرتين قد افترقتا فقامت كل واحدة منهما على ساق. رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ فَذَهَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِهِ وَإِذَا شَجَرَتَيْنِ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا فَقَالَ انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ حَتَّى أَتَى الشَّجَرَةَ الْأُخْرَى فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا فَقَالَ انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا قَالَ الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ فَالْتَأَمَتَا فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي فَحَانَتْ مِنِّي لفتة فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا وَإِذَا الشَّجَرَتَيْنِ قَدِ افْتَرَقَتَا فَقَامَتْ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَى سَاقٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے حتیٰ کہ ہم نے ایک وسیع وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، آپ نے اوٹ کے لیے کوئی چیز نہ دیکھی البتہ وادی کے کنارے پر دو درخت دیکھے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں سے ایک کی طرف چل دیے، اور اس کی ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر۔ چنانچہ اس نے نکیل دیئے ہوئے اونٹ کی طرح جھک کر آپ کے اوپر پردہ کیا، جس طرح وہ اپنے قائد کی اطاعت کرتا ہے، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی ایک شاخ کو پکڑ کر فرمایا: اللہ کے حکم سے مجھ پر پردہ کر۔ وہ بھی اسی طرح آپ پر جھک گیا، حتیٰ کہ جب وہ دونوں نصف فاصلے پر پہنچ گئے تو فرمایا: اللہ کے حکم سے مجھ پر سایہ کر دو۔ چنانچہ وہ دونوں قریب ہو گئے (حتیٰ کہ آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے) میں بیٹھا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، اور میں نے دونوں درختوں کو دیکھا کہ وہ الگ الگ ہو گئے، اور ہر ایک اپنے تنے پر کھڑا ہو گیا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (74/ 3012)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. شفاء امراض
حدیث نمبر: 5886
Save to word اعراب
عن يزيد بن ابي عبيد قال: رايت اثر ضربة في ساق سلمة بن الاكوع فقلت يا ابا مسلم ما هذه الضربة؟ فقال: هذه ضربة اصابتني يوم خيبر فقال الناس اصيب سلمة فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فنفث فيه ثلاث نفثات فما اشتكيتها حتى الساعة. رواه البخاري عَن يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ فَقُلْتُ يَا أَبَا مُسلم مَا هَذِه الضَّربةُ؟ فَقَالَ: هَذِه ضَرْبَةٌ أَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ النَّاسُ أُصِيبَ سَلَمَةُ فَأَتَيْتُ الْنَبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
یزید بن ابی عبید ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی پر چوٹ کا نشان دیکھا تو میں نے کہا: ابومسلم! یہ چوٹ کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ چوٹ مجھے غزوۂ خیبر کے موقع پر لگی تھی، لوگوں نے تو کہہ دیا تھا: سلمہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے وہاں تین بار دم کیا اور پھر آج تک مجھے اس کی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4206)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. لوگوں سے قیمتی آنسو
حدیث نمبر: 5887
Save to word اعراب
وعن انس قال نعى النبي صلى الله عليه وسلم زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل ان ياتيه خبرهم فقال اخذ الراية زيد فاصيب ثم اخذ جعفر فاصيب ثم اخذ ابن رواحة فاصيب وعيناه تذرفان حتى اخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم. رواه البخاري وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ نَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَن يَأْتِيهِ خَبَرُهُمْ فَقَالَ أَخْذَ الرَّايَةَ زِيدٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ من سيوف الله حَتَّى فتح الله عَلَيْهِم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید، جعفر اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کی خبر شہادت آنے سے پہلے ہی ان کی شہادت کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زید نے پرچم تھام لیا اور وہ شہید کر دیے گئے، پھر جعفر نے تھام لیا وہ بھی شہید کر دیے گئے پھر ابن رواحہ نے تھام لیا تو وہ بھی شہید کر دیے گئے۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حتیٰ کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد بن ولید نے پرچم تھام لیا اور اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی ہے۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4262)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. معرکہ حنین
حدیث نمبر: 5888
Save to word اعراب
وعن عباس قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين فلما التقى المسلمون والكفار ولى المسلمون مدبرين فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يركض بغلته قبل الكفار وانا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم اكفها إرادة ان لا تسرع وابو سفيان آخذ بركاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اي عباس ناد اصحاب السمرة فقال عباس وكان رجلا صيتا فقلت باعلى صوتي اين اصحاب السمرة فقال والله لكان عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على اولادها فقالوا يا لبيك يا لبيك قال فاقتتلوا والكفار والدعوة في الانصار يقولون يا معشر الانصار يا معشر الانصار قال ثم قصرت الدعوة على بني الحارث بن الخزرج فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على بغلته كالمتطاول عليها إلى قتالهم فقال حين حمي الوطيس ثم اخذ حصيات فرمى بهن وجوه الكفار ثم قال انهزموا ورب محمد فوالله ما هو إلا ان رماهم بحصياته فما زلت ارى حدهم كليلا وامرهم مدبرا. رواه مسلم وَعَن عَبَّاسٍ قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا إِرَادَةَ أَن لَا تسرع وَأَبُو سُفْيَان آخِذٌ بِرِكَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ عَبَّاسُ نَادِ أَصْحَابَ السَّمُرَةِ فَقَالَ عَبَّاسٌ وَكَانَ رَجُلًا صَيِّتًا فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا فَقَالُوا يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ قَالَ فَاقْتَتَلُوا وَالْكُفَّارَ وَالدَّعْوَةُ فِي الْأَنْصَارِ يَقُولُونَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالَ ثُمَّ قُصِرَتِ الدَّعْوَةُ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ فَقَالَ حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ ثُمَّ أَخَذَ حَصَيَاتٍ فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ ثُمَّ قَالَ انْهَزَمُوا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا وَأَمْرَهُمْ مُدبرا. رَوَاهُ مُسلم
عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوۂ حنین کے موقع پر میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوا تو کچھ مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جبکہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر کو کفار کی طرف بھگا رہے تھے اور میں ��سول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھا، میں اس (خچر) کو روک رہا تھا کہ وہ تیز نہ دوڑے جبکہ ابوسفیان بن حارث رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رکاب تھامے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عباس! درخت (کے نیچے بیعت رضوان کرنے) والوں کو آواز دو۔ راوی بیان کرتے ہیں، عباس رضی اللہ عنہ کی آواز بلند تھی، وہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی بلند آواز سے کہا: درخت (کے نیچے بیت کرنے) والے کہاں ہیں؟ وہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی قسم! جب انہوں نے میری آواز سنی تو وہ اس طرح واپس آئے جس طرح گائے اپنی اولاد کے پاس آتی ہے، انہوں نے عرض کیا، ہم حاضر ہیں! ہم حاضر ہیں! راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے کفار سے قتال کیا اس روز انصار کا نعرہ یا انصار تھا، راوی بیان کرتے ہیں، پھر یہ نعرہ بنو حارث بن خزرج تک محدود ہو کر رہ گیا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خچر پر سے میدانِ جنگ کی طرف دیکھا تو فرمایا: اب میدانِ جنگ گرم ہو گیا ہے۔ پھر آپ نے کنکریاں پکڑیں اور انہیں کافروں کے چہروں پر پھینکا، پھر فرمایا: محمد کے رب کی قسم! وہ شکست خوردہ ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کی طرف کنکریاں پھینکنا ہی ان کی شکست کا باعث تھا، میں ان کی حدت، ان کی لڑائی اور ان کی تلواروں کو کمزور ہی دیکھتا رہا، اور ان کے معاملے کو ذلیل ہی دیکھتا رہا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (76/ 1775)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    11    12    13    14    15    16    17    18    19    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.