وعن البراء بن عازب عن ابيه انه قال لابي بكر: يا ابا بكر حدثني كيف صنعتما حين سريت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اسرينا ليلتنا ومن الغد حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق لا يمر فيه احد فرفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم يات عليها الشمس فنزلنا عندها وسويت للنبي صلى الله عليه وسلم مكانا بيدي ينام عليه وبسطت عليه فروة وقلت نم يا رسول الله وانا انفض ما حولك فنام وخرجت انفض ما حوله فإذا انا براع مقبل قلت: افي غنمك لبن؟ قال: نعم قلت: افتحلب؟ قال: نعم. فاخذ شاة فحلب في قعب كثبة من لبن ومعي إداوة حملتها للنبي صلى الله عليه وسلم يرتوى فيها يشرب ويتوضا فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فكرهت ان اوقظه فوافقته حتى استيقظ فصببت من الماء على اللبن حتى برد اسفله فقلت: اشرب يا رسول الله فشرب حتى رضيت ثم قال: «الم يان الرحيل؟» قلت: بلى قال: فارتحلنا بعد ما مالت الشمس واتبعنا سراقة بن مالك فقلت: اتينا يا رسول الله فقال: «لا تحزن إن الله معنا» فدعا عليه النبي صلى الله عليه وسلم فارتطمت به فرسه إلى بطنها في جلد من الارض فقال: إني اراكما دعوتما علي فادعوا لي فالله لكما ان ارد عنكما الطلب فدعا له النبي صلى الله عليه وسلم فنجا فجعل لا يلقى احدا إلا قال كفيتم ما ههنا فلا يلقى احدا إلا رده. متفق عليه وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنَ الْغَدِ حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ يَأْتِ عَلَيْهَا الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدَيَّ يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً وَقُلْتُ نَمْ يَا رسولَ الله وَأَنَا أَنْفُضُ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ قُلْتُ: أَفِي غنمكَ لبنٌ؟ قَالَ: نعم قلتُ: أفتحلبُ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَأَخَذَ شَاةً فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوَى فِيهَا يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ الْنَبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنَ الْمَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَشَرِبَ حَتَّى رضيت ثمَّ قَالَ: «ألم يَأن الرحيل؟» قلتُ: بَلى قَالَ: فارتحلنا بعد مَا مَالَتِ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ فَقُلْتُ: أُتِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: «لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا» فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا فِي جَلَدٍ مِنَ الْأَرْضِ فَقَالَ: إِنِّي أَرَاكُمَا دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يلقى أحدا إِلا قَالَ كفيتم مَا هَهُنَا فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
براء بن عازب رضی اللہ عنہ اپنے والد (عازب رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوبکر! جب آپ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے لیے) روانہ ہوئے تو آپ کا یہ سفر کیسے گزرا؟ انہوں نے فرمایا: ہم رات بھر اور اگلے روز دوپہر تک چلتے رہے، راستہ خالی تھا وہاں سے کوئی بھی نہیں گزر رہا تھا، ہمیں ایک طویل چٹان نظر آئی جس کا سایہ تھا، ابھی وہاں دھوپ نہیں آئی تھی، ہم نے وہاں قیام کیا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کے لیے اپنے ہاتھوں سے جگہ برابر کی اس پر ایک پوستین بچھائی، اور پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ سو جائیں، اور میں اردگرد کے حالات کا جائزہ لیتا ہوں، آپ سو گئے اور میں جائزہ لینے کے لیے باہر نکل آیا، میں نے ایک چرواہا آتے ہوئے دیکھا اور اسے کہا: کیا تیری بکریاں دودھ دیتی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا تم (میرے ل��ے) دودھ نکالو گے؟ اس نے کہا: ہاں، اس نے ایک بکری پکڑی اور لکڑی کے پیالے میں دودھ دوہا، اور میرے پاس ایک برتن تھا جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ساتھ رکھا تھا، آپ اس سے سیراب ہوتے اور اسی سے پانی پیتے اور وضو کیا کرتے تھے، میں دودھ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا، میں نے انتظار کیا حتیٰ کہ آپ بیدار ہوئے، میں نے دودھ پر پانی ڈالا حتیٰ کہ اس کا نچلا حصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! نوش فرمائیں، آپ نے دودھ نوش فرمایا تو مجھے فرصت میسر آئی پھر آپ نے فرمایا: ”کیا کوچ کرنے کا وقت نہیں ہوا؟“ میں نے عرض کیا، کیوں نہیں، ہو گیا ہے، فرمایا ہم نے زوال آفتاب کے بعد کوچ کیا، اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا تو میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! پیچھا کرنے والا ہمیں آ لینا چاہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے بددعا فرمائی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک سخت زمین میں دھنس گیا، اس نے کہا: میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نے میرے لیے بددعا کی ہے، تم میرے لیے دعا کرو اور میں تمہیں اللہ کی ضمانت دیتا ہوں کہ میں تمہاری تلاش میں نکلنے والوں کو تمہارے پیچھے نہیں آنے دوں گا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ نجات پا گیا، پھر وہ جسے بھی ملتا اس سے یہی کہتا: اس طرف تمہیں جانے کی ضرورت نہیں، میں ادھر سے ہو آیا ہوں، اس طرح وہ ہر ملنے والے کو واپس کر دیتا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3615) ومسلم (75/ 2009)»
وعن انس قا ل سمع عبد الله بن سلام بمقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في ارض يخ رف فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إني سائلك عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي: فما اول اشراط الساعة وما اول طعام اهل الجنة؟ وما ينزع الولد إلى ابيه او إلى امه؟ قا ل: «اخبرني بهن جبريل آنفا اما اول اشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلى المغرب واما اول طعام ياكله اهل الجنة فزيادة كبد الحوت وإذا سبق ماء الرجل ماء المراة نزع الولد وإذا سبق ماء المراة نزعت» . قال: اشهد ان لاإله إلا الله وانك رسول الله يا رسول الله إن اليهود قوم بهت وإنهم إن يعلموا بإسلامي من قبل ان تسالهم يبهتوني فجاءت اليهود فقال: «اي رجل عبد الله فيكم؟» قالوا: خيرنا وابن خيرنا وسيدنا وابن سيدنا فقال: «ارايتم إن اسلم عبد الله بن سلام؟» قالوا اعاذه الله من ذلك. فخرج عبد الله فقال اشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله فقالوا: شرنا وابن شرنا فانتقصوه قال: هذا الذي كنت اخاف يا رسول الله رواه البخاري وَعَن أنس قا ل سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ بِمَقْدَمِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي أَرْضٍ يَخْ َرِفُ فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ: فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ وَمَا يَنْزِعُ الولدُ إِلَى أبيهِ أَو إِلَى أمه؟ قا ل: «أَخْبرنِي بهنَّ جِبْرِيلُ آنِفًا أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوت وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزْعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ نَزَعَتْ» . قَالَ: أشهد أَن لاإله إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهْتٌ وَإِنَّهُمْ إِنْ يعلمُوا بِإِسْلَامِي من قبل أَن تَسْأَلهُمْ يبهتوني فَجَاءَتِ الْيَهُودُ فَقَالَ: «أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ فِيكُمْ؟» قَالُوا: خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سيدِنا فَقَالَ: «أرأَيتم إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ؟» قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ. فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَقَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا فَانْتَقَصُوهُ قَالَ: هَذَا الَّذِي كُنْتُ أَخَافُ يَا رسولَ الله رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے متعلق سنا تو وہ اس وقت پھل توڑ رہے تھے، وہ فوراً نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا، میں آپ سے تین سوال کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے، (بتائیں) علامات قیامت میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہو گا؟ بچہ کب اپنے والد کے مشابہ ہوتا ہے اور کب اپنی والدہ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل نے ابھی ابھی ان کے متعلق مجھے بتایا ہے، جہاں تک علامات قیامت کا تعلق ہے تو پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر دے گی، رہا جنتیوں کا پہلا کھانا تو وہ مچھلی کے جگر کا ایک کنارہ ہو گا، اور جب آدمی کا پانی عورت کے پانی (منی) پر غالب آ جاتا ہے تو بچہ والد کے مشابہ ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آ جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ “(یہ جواب سن کر) انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں، (پھر فرمایا) اللہ کے رسول! یہودی بڑے بہتان باز ہیں، اگر انہیں، اس سے پہلے کہ آپ ان سے میرے متعلق پوچھیں، میرے اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے، چنانچہ اتنے میں یہودی آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ کا تمہارے ہاں کیا مقام ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ہم میں سب سے بہتر، ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کر لیں (تو پھر)؟ انہوں نے کہا، اللہ انہیں اس سے پناہ میں رکھے، عبداللہ اسی دوران باہر تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر یہ (یہودی ان کے بارے میں) کہنے لگے: وہ ہم میں سب سے برا ہے اور ہم میں سے سب سے برے کا بیٹا ہے، اور وہ ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہی وہ چیز تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4480)»
وعنه قا ل: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم شاور حين بلغنا إقبال ابي سفيان وقام سعد بن عبادة فقال: يا رسول الله والذي نفسي بيده لو امرتنا ان نخيضها البحر لاخضناها ولو امرتنا ان نضرب اكبادها إلى برك الغماد لفعلنا. قال: فندب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس فانطلقوا حتى نزلوا بدرا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هذا مصرع فلان» ويضع يده على الارض ههنا وههنا قا ل: فما ماط احدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه مسلم وَعنهُ قا ل: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاوَرَ حِينَ بَلَغَنَا إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ: فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسُ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ» وَيَضَعُ يدَه على الأرضِ هَهُنَا وَهَهُنَا قا ل: فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابو سفیان کی آمد کا ہمیں پتہ چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشورہ کیا تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود جائیں گے، اور اگر آپ برک غماد تک جانے کا حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں تک بھی پہنچیں گے، راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا، پھر کوچ کیا حتیٰ کہ بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں فلاں قتل ہو گا۔ “ اور آپ اپنے دست مبارک سے زمین پر نشان لگا رہے تھے، یہاں اور یہاں، راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشان کی جگہ سے کوئی بھی آگے پیچھے قتل نہیں ہوا تھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (83/ 1779)»
وعن ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال وهو في قبة يوم بدر: «اللهم انشدك عهدك ووعدك اللهم إن تشا لا تعبد بعد اليوم» فاخذ ابو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله الححت على ربك فخرج وهو يثب في الدرع وهو يقول: «[سيهزم الجمع ويولون الدبر]» . رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ يَوْمَ بَدْرٍ: «اللَّهُمَّ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ» فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بيدِه فَقَالَ حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ فَخَرَجَ وَهُوَ يَثِبُ فِي الدِّرْعِ وَهُوَ يقولُ: «[سيُهزَمُ الجمعُ ويُوَلُّونَ الدُّبُرَ]» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقع پر اپنے خیمے میں یوں دعا فرمائی: ”اے اللہ! میں تجھ سے تیرے عہد و امان اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! کیا تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے؟“ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کا دست مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! بس کیجیے! آپ نے رب سے کس قدر اصرار سے دعا کی ہے، پھر آپ باہر تشریف لائے اس وقت آپ خوب تیز چل رہے تھے اور آپ نے زرہ پہن رکھی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”عنقریب یہ گروہ شکست کھا جائے گا، اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4875)»
وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم بدر: «هذا جبريل آخذ براس فرسه عليه اداة الحرب» . رواه البخاري وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ بَدْرٍ: «هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فرسه عَلَيْهِ أَدَاة الْحَرْب» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بدر کے روز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبریل ؑ آلاتِ حرب سجائے اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تشریف لا رہے تھے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3995)»
وعنه قا ل: بينما رجل من المسلمين يومئذ يشتد في إثر رجل من المشركين امامه إذ سمع ضربة بالسوط فوقه وصوت الفارس يقول: اقدم حيزوم. إذ نظر إلى المشرك امامه خر مستلقيا فنظر إليه فإذا هو قد خطم انفه وشق وجهه كضربة السوط فاخضر ذلك اجمع فجاء الانصاري فحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «صدقت ذلك من مدد السماء الثالثة» فقتلوا يومئذ سبعين واسروا سبعين. رواه مسلم وَعنهُ قا ل: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي إِثْرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ وَصَوْتُ الْفَارِسِ يَقُولُ: أَقْدِمْ حَيْزُومُ. إِذْ نَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ خَرَّ مُسْتَلْقِيًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «صَدَقْتَ ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ» فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سبعين. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس روز ایک مسلمان، ایک مشرک کا پیچھا کر رہا تھا، اس کے آگے اس (مسلمان) نے اس (مشرک) کے اوپر ایک کوڑے کی آواز سنی، اور گھڑ سوار کو یہ کہتے ہوئے سنا: حیزوم (گھوڑے کا نام ہے) آگے بڑھ، اچانک اس (مسلمان) نے مشرک کو اپنے سامنے چت گرا ہوا پایا اور اس نے اسے دیکھا کہ کوڑا پڑنے سے اس کی ناک اور اس کا چہرہ پھٹ چکا تھا اور جہاں کوڑا پڑا تھا وہ جگہ کالی ہو گئی تھی، وہ انصاری آیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے مدد آئی تھی۔ “ اس دن انہوں نے ستر (کافروں) کو قتل کیا اور ستر کو قیدی بنایا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (58/ 1763)»
وعن سعد بن ابي وقاص قال: رايت عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم وعن شماله يوم احد رجلين عليهما ثياب بيض يقاتلان كاشد القتال ما رايتهما قبل ولا بعد يعني جبريل وميكائيل. متفق عليه وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَنْ يَمِينُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ شِمَالِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ يُقَاتِلَانِ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ مَا رأيتُهما قبلُ وَلَا بعد يَعْنِي جِبْرِيل وَمِيكَائِيل. مُتَّفق عَلَيْهِ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمی دیکھے ان پر سفید کپڑے تھے اور وہ بڑی شدت کے ساتھ لڑ رہے تھے، میں نے ان دونوں کو اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں، یعنی وہ جبریل اور میکائیل ؑ تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4045) و مسلم (46/ 2306)»
وعن البراء قال بعث النبي صلى الله عليه وسلم رهطا إلى ابي رافع فدخل عليه عبد الله بن عتيك بيته ليلا وهو نائم فقتله فقال عبد الله بن عتيك: فوضعت السيف في بطنه حتى اخذ في ظهره فعرفت اني قتلته فجعلت افتح الابواب حتى انتهيت إلى درجة فوضعت رجلي فوقعت في ليلة مقمرة فانكسرت ساقي فعصبتها بعمامة فانطلقت إلى اصحابي فانتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته فقال: «ابسط رجلك» . فبسطت رجلي فمسحها فكانما لم اشتكها قط. رواه البخاري وَعَن الْبَراء قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا إِلَى أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ بَيْتَهُ لَيْلًا وَهُوَ نَائِمٌ فَقَتَلَهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ: فَوَضَعْتُ السَّيْف فِي بَطْنه حَتَّى أَخذ فِي ظَهره فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ فَوَضَعْتُ رِجْلِي فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبَتُهَا بِعِمَامَةٍ فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ: «ابْسُطْ رِجْلَكَ» . فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَكَأَنَّمَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کی طرف بھیجا، عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہو گئے اور اسے قتل کر دیا، عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے تلوار اس کے پیٹ میں اتار دی حتیٰ کہ وہ اس کی پشت تک پہنچ گئی، جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، تو میں دروازے کھولنے لگا حتیٰ کہ میں آخری زینے تک پہنچ گیا، میں نے اپنا پاؤں رکھا اور میں گر گیا، چاندنی رات تھی، میری پنڈلی ٹوٹ گئی، میں نے عمامے کے ساتھ اس پر پٹی باندھی، اور میں اپنے ساتھیوں کے پاس چلا آیا پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پورا واقعہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ “ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ ایسے ہو گیا جیسے کبھی اس میں تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3022)»
وعن جابر قا ل إنا يوم الخندق نحفر فعرضت كدية شديدة فجاؤوا النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: هذه كدية عرضت في الخندق فقال: «انا نازل» ثم قام وبطنه معصوب بحجر ولبثنا ثلاثة ايام لانذوق ذوقا فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم المعول فضرب فعاد كثيبا اهيل فانكفات إلى امراتي فقلت: هل عندك شيء؟ فإني رايت بالنبي صلى الله عليه وسلم خمصا شديدا فاخرجت جرابا فيه صاع من شعير ولنا بهمة داجن فذبحتها وطحنت الشعير حتى جعلنا اللحم في البرمة ثم جئت النبي صلى الله عليه وسلم فساررته فقلت: يا رسول الله؟ ذبحنا بهيمة لنا وطحنت صاعا من شعير فتعال انت ونفر معك فصاح النبي صلى الله عليه وسلم: «يا اهل الخندق إن جابرا صنع سورا فحي هلا بكم» فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنزلن برمتكم ولا تخبزن عجينكم حتى اجيء» . وجاء فاخرجت له عجينا فبصق فيه وبارك ثم عمد إلى برمتنا فبصق وبارك ثم قال «ادعي خابزة فلتخبز معي واقدحي من برمتكم ولا تنزلوها» وهم الف فاقسم بالله لاكلوا حتى تركوه وانحرفوا وإن برمتنا لتغط كما هي وإن عجيننا ليخبز كما هو. متفق عليه وَعَن جَابر قا ل إِنَّا يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيدَةٌ فجاؤوا الْنَبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ فَقَالَ: «أَنَا نَازِلٌ» ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ وَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّام لانذوق ذوقا فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فَعَادَ كَثِيبًا أَهْيَلَ فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ جراباً فِيهِ صاعٌ من شعير وَلنَا بَهْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ حَتَّى جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَةِ ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فساررتُه فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنْتُ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أهلَ الخَنْدَق إِن جَابِرا صَنَعَ سُوراً فَحَيَّ هَلًا بِكُمْ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ» . وَجَاءَ فَأَخْرَجْتُ لَهُ عَجِينًا فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرمْتنا فبصقَ وَبَارك ثمَّ قَالَ «ادعِي خابزة فلتخبز معي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا» وَهُمْ أَلْفٌ فَأَقْسَمَ بِاللَّهِ لَأَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَزُ كَمَا هُوَ. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو ایک بہت سخت چٹان نکل آئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: خندق میں یہ ایک چٹان نکل آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(اچھا) میں اترتا ہوں۔ “ پھر آپ کھڑے ہوئے، اس وقت آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا، تین دن گزر چکے تھے اور ہم نے کوئی چیز چکھ کر بھی نہیں دیکھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کدال پکڑ کر ماری تو وہ (چٹان) ایسی ریت کی مانند ہو گئی جو آسانی سے گرتی ہے، میں اپنی اہلیہ کے پاس آیا تو پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے؟ کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت بھوک کے عالم میں دیکھا ہے، اس نے ایک تھیلی نکالی اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا، میں نے اسے ذبح کیا، جو پیسے حتیٰ کہ ہم نے گوشت کو ہنڈیا میں رکھا، پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور سرغوشی کے انداز میں عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم نے اپنا بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا گوندھا ہے، لہذا آپ تشریف لائیں اور کچھ ساتھیوں کو بھی ساتھ لے چلیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زور سے آواز دی: ”خندق والو! جابر نے ضیافت کا اہتمام کیا ہے، آؤ جلدی کرو۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے آنے تک اپنی ہنڈیا چولہے سے اتارنا نہ روٹی پکانا شروع کرنا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے آٹا نکالا، آپ نے اس میں اپنا لعاب ملایا اور برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”روٹی پکانے والی کو بلاؤ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکائے اور ہنڈیا سے سالن نکالتے رہو، لیکن اسے چولہے سے نیچے نہ اتارو۔ “ وہ ایک ہزار کی تعداد میں تھے، میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ ان سب نے کھا لیا حتیٰ کہ وہ بچ گیا، اور وہ واپس چلے گئے جبکہ ہماری ہنڈیا پہلے کی طرح بھری ہوئی تھی اور آٹے کی روٹیاں پہلے کی طرح پکائی جا رہی تھیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4101. 4102) و مسلم (141/ 2039)»
وعن ابي قتادة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعمار حين يحفر الخندق فجعل يمسح راسه ويقول: «بؤس بن سمية تقتلك الفئة الباغية» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَمَّارٍ حِينَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ فَجَعَلَ يَمْسَحُ رَأسه وَيَقُول: «بؤس بن سميَّة تقتلك الفئة الباغية» . رَوَاهُ مُسلم
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خندق کھودتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا، آپ اس وقت ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”سمیہ کے بیٹے! تجھے تکالیف کا سامنا ہو گا اور تجھے باغی گروہ شہید کرے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (71، 70/ 2915)»