وعن انس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كسرت رباعيته يوم احد وشج راسه فجعل يسلت الدم عنه ويقول: «كيف يفلح قوم شجوا راس نبيهم وكسروا رباعيته» . رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ وَيَقُولُ: «كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا رَأْسَ نَبِيِّهِمْ وَكَسَرُوا رَبَاعِيَتَهُ» . رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے اور آپ کا سر مبارک زخمی کر دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خون صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کر دیا اور اس کے سامنے کے چار دانت شہید کر دیے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (104 / 1791)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اشتد غضب الله على قوم فعلوا بنبيه» يشير إلى رباعيته «اشتد غضب الله على رجل يقتله رسول الله في سبيل الله» . متفق عليه وهذا الباب خال عن: الفصل الثاني وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا بِنَبِيِّهِ» يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ «اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ: الْفَصْلِ الثَّانِي
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس قوم پر سخت ناراض ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ “ اور اس سے آپ کا اشارہ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف تھا ”اور ایسے شخص پر بھی اللہ کا غضب شدید ہوتا ہے جسے اللہ کا رسول اللہ کی راہ میں قتل کر دے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4073) و مسلم (106/ 1793)»
عن يحيى بن ابي كثير قال: سالت ابا سلمة بن عبد الرحمن عن اول ما نزل من القرآن؟ قال: [يا ايها المدثر] قلت: يقولون: [اقرا باسم ربك] قال ابو سلمة: سالت جابرا عن ذلك. وقلت له مثل الذي قلت لي. فقال لي جابر: لا احدثك إلا بما حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: جاورت بحراء شهرا فلما قضيت جواري هبطت فنوديت فنظرت عن يميني فلم ار شيئا ونظرت عن شمالي فلم ار شيئا ونظرت عن خلفي فلم ار شيئا فرفعت راسي فرايت شيئا فاتيت خديجة فقلت: دثروني فدثروني وصبوا علي ماء باردا فنزلت: [يا ايها المدثر. قم فانذر وربك فكبر. وثيابك فطهر. والرجز فاهجر] وذلك قبل ان تفرض الصلاة. متفق عليه عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نزل من الْقُرْآن؟ قَالَ: [يَا أَيهَا المدثر] قلت: يَقُولُونَ: [اقْرَأ باسم ربِّك] قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ ذَلِكَ. وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ لِي. فَقَالَ لِي جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا بِمَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي وصبُّوا عليَّ مَاء بَارِدًا فَنزلت: [يَا أَيهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرجز فاهجر] وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
یحیی بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں، میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے پوچھا: قرآن کا کون سا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا؟ انہوں نے کہا: (یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ) میں نے کہا: وہ (بعض علما) کہتے ہیں: (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ) ابوسلمہ نے فرمایا: میں نے جابر سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، اور میں نے بھی ان سے اسی طرح کہا تھا جس طرح تم نے مجھے کہا ہے، تو جابر رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ میں تمہیں وہی کچھ بیان کر رہا ہوں جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے حرا میں ایک ماہ خلوت اختیار کی، جب میں نے اپنی خلوت پوری کر لی، تو میں نیچے اتر آیا، مجھے آواز دی گئی، میں نے اپنے دائیں دیکھا تو مجھے کوئی چیز نظر نہ آئی، میں نے اپنے بائیں دیکھا تو مجھے کچھ نظر نہ آیا، میں نے اپنے پیچھے دیکھا تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی، میں نے اوپر دیکھا تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی، پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس آ گیا تو میں نے کہا: مجھے چادر اوڑھا دو، انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی، اور انہوں نے مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا، اور پھر مجھ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (جس کا ترجمہ اس طرح ہے)”اے چادر اوڑھنے والے! کھڑے ہو جائیں، اور ڈرائیں، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں، اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھیں اور شرک سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ “ اور یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4922) و مسلم (255/ 161)»
عن انس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتاه جبريل وهو يلعب مع الغلمان فاخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج منه علقة. فقال: هذا حظ الشيطان منك ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم ثم لامه واعاده في مكانه وجاء الغلمان يسعون إلى امه يعني ظئره. فقالوا: إن محمدا قد قتل فاستقبلوه وهو منتقع اللون قال انس: فكنت ارى اثر المخيط في صدره. رواه مسلم عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً. فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ لَأَمَهُ وَأَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ. فَقَالُوا: إِنْ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقَعُ اللَّوْنِ قَالَ أَنَسٌ: فَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جبرائیل ؑ تشریف لائے، آپ اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، انہوں نے آپ کو پکڑ کر لٹایا، آپ کا سینہ چاک کر کے دل سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ آپ کے (جسم میں) شیطان کا حصہ تھا، پھر اس (دل) کو سونے کی ایک طشت میں (رکھ کر) آب زم زم سے دھویا اور پھر اسے جوڑ کر اس کی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا، یہ (ماجرہ دیکھ کر) بچے دوڑ کر آپ کی والدہ یعنی آپ کی دایہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ فوراً آپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ آپ کا رنگ تبدیل ہو چکا تھا، انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے سلائی کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر دیکھا تھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (261 / 162)»
وعن جابر بن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني لاعرف حجرا بمكة كان يسلم علي قبل ان ابعث إني لاعرفه الآن» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبعث إِني لأعرفه الْآن» . رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں مکہ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو کہ میری بعثت سے قبل مجھے سلام کیا کرتا تھا، اور میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2/ 2277)»
وعن انس قال: إن اهل مكة سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يريهم آية فاراهم القمر شقتين حتى راوا حراء بينهما. متفق عليه وَعَن أنسٍ قَالَ: إِنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً فَأَرَاهُمُ الْقَمَرَ شِقَّتَيْنِ حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دکھایا، حتی کہ انہوں نے حرا کو ان دو ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3868) و مسلم (46/ 2802)»
وعن ابن مسعود قال: انشق القمر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فرقتين: فرقة فوق الجبل وفرقة دونه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اشهدوا» . متفق عليه وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ: فِرْقَةً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَةً دُونَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْهَدُوا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا اس کے نیچے (گرا) تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(میری نبوت کی) گواہی دو۔ “(دوسرا معنی): ”(معجزہ) دیکھ لو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4864) و مسلم (45. 43/ 2800)»
وعن ابي هريرة قال: قال ابو جهل: هل يعفر محمد وجهه بين اظهركم؟ فقيل: نعم. فقال: واللات والعزى لئن رايته يفعل ذلك لاطان على رقبته فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي-زعم ليطا على رقبته-فما فجئهم منه إلا وهو ينكص على عقبيه ويتقي بيديه فقيل له مالك؟ فقال: إن بيني وبينه لخندقا من نار وهولا واجنحة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو دنا مني لاختطفته الملائكة عضوا عضوا» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: هَلْ يُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْهَهُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟ فَقِيلَ: نَعَمْ. فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَئِنْ رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ لَأَطَأَنَّ عَلَى رَقَبَتِهِ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي-زَعَمَ لِيَطَأَ عَلَى رَقَبَتِهِ-فَمَا فَجِئَهُمْ مِنْهُ إِلَّا وَهُوَ يَنْكُصُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَيَتَّقِي بِيَدَيْهِ فَقِيلَ لَهُ مَالك؟ فَقَالَ: إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَهَوْلًا وَأَجْنِحَةً. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ دَنَا مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْواً عُضْواً» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوجہل نے کہا: کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے اپنا چہرہ خاک آلود (یعنی سجدہ) کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: لات و عزی کی قسم! اگر میں نے اسے ایسے کرتے ہوئے دیکھا تو میں اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور نماز شروع کر دی ابوجہل نے اس دوران آپ کی گردن پر پاؤں رکھنے کا ارادہ کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن وہ فوراً الٹے پاؤں دوڑا اور خود کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بچانے لگا، اس سے پوچھا گیا، تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرے اور اس (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان آگ کی خندق، ہیبت اور (فرشتوں کے) پر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ میرے قریب آ جاتا تو فرشتے اسے اچک لیتے اور اس کا جوڑ جوڑ توڑ دیتے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (38/ 2797)»
وعن عدي بن حاتم قال: بينا انا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه رجل فشكا إليه الفاقة ثم اتاه الآخر فشكا إليه قطع السبيل. فقال: يا عدي هل رايت الحيرة؟ فإن طالت بك حياة فلترين الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف احدا إلا الله ولئن طالت بك حياة لتفتحن كنوز كسرى ولئن طالت بك حياة لترين الرجل يخرج ملء كفه من ذهب او فضة يطلب من يقبله فلا يجد احدا يقبله منه وليلقين الله احدكم يوم يلقاه وليس بينه وبينه ترجمان يترجم له فليقولن: الم ابعث إليك رسولا فليبلغك؟ فيقول: بلى. فيقول: الم اعطك مالا وافضل عليك؟ فيقول: بلى فينظر عن يمينه فلا يرى إلا جهنم وينظر عن يساره فلا يرى إلا جهنم اتقوا النار ولو بشق تمرة فمن لم يجد فبكلمة طيبة قال عدي: فرايت الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف إلا الله وكنت فيمن افتتح كنوز كسرى بن هرمز ولئن طالت بكم حياة لترون ما قال النبي ابو القاسم صلى الله عليه وسلم: «يخرج ملء كفيه» . رواه البخاري وَعَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْد النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ الْآخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ. فَقَالَ: يَا عدي هَل رَأَيْتَ الْحِيرَةَ؟ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ فَلَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَلَئِنْ طَالَتْ بك حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يَخْرُجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ فَلَا يجد أحدا يقبله مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ فَلَيَقُولَنَّ: أَلَمْ أَبْعَثْ إِليك رَسُولا فليبلغك؟ فَيَقُولُ: بَلَى. فَيَقُولُ: أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْكَ؟ فَيَقُولُ: بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ قَالَ عَدِيٌّ: فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ ملْء كفيه» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو اس نے فاقے کی شکایت کی، پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے رہزنی کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عدی! کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے؟ اگر تیری عمر دراز ہوئی تو تم دیکھو گے عورت حیرہ (کوفے کے پاس ایک بستی) سے ہودج میں سوار ہو کر آئے گی اور وہ کعبہ کا طواف کرے گی، اسے اس دوران اللہ کے سوا کسی کا ڈر خوف نہیں ہو گا۔ اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم پر کسریٰ کے خزانے کھول دیے جائیں گے، اور اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو تم دیکھو گے کہ آدمی ہاتھ میں سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کر لے لیکن اسے ایسا کوئی آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے، اور تم میں سے ہر ایک قیامت کے دن اللہ سے ملاقات کرے گا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا جو کہ اس کی ترجمانی کر سکے، وہ فرمائے گا: کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجے تھے کہ وہ تیری طرف میرا پیغام پہنچائے؟ وہ شخص کہے گا، کیوں نہیں ضرور آئے تھے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا اور میں نے تجھے فضیلت عطا نہیں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں، ضرور عطا کی تھی، وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی، پھر وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی۔ جہنم سے بچ جاؤ، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو، چنانچہ جو شخص یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کے ذریعے (آگ سے بچ جائے)۔ “ عدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ہودج میں سوار عورت کو دیکھا کہ وہ حیرہ سے آئی اور اس نے کعبہ کا طواف کیا، اور اسے اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر خوف نہیں تھا، اور جن کے لیے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے کھولے گئے میں بھی ان میں موجود تھا، اور اگر تمہاری عمر دراز ہوئی تو تم وہ کچھ ضرور دیکھو گے، جس کی ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ”ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا اور چاندی لے کر نکلے گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3595)»
وعن خباب بن الارت قال: شكونا إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو متوسد بردة في ظل الكعبة وقد لقينا من المشركين شدة فقلنا: الا تدعو الله فقعد وهو محمر وجهه وقال: «كان الرجل فيمن كان قبلكم يحفر له في الارض فيجعل فيه فيجاء بمنشار فيوضع فوق راسه فيشق باثنين فما يصده ذلك عن دينه والله ليتمن هذا الامر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخاف إلا الله او الذئب على غنمه ولكنكم تستعجلون» . رواه البخاري وَعَن خبَّاب بن الأرتِّ قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَقد لَقينَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ شِدَّةً فَقُلْنَا: أَلَا تَدْعُو اللَّهَ فَقَعَدَ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ وَقَالَ: «كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِمِنْشَارٍ فَيُوضَعُ فَوْقَ رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَيْنِ فَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيَتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرُ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا الله أَو الذِّئْب على غنمه ولكنَّكم تَسْتَعْجِلُون» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (کفار کی ایذا رسانی کی) شکایت کی، آپ اس وقت کعبہ کے سائے میں دھاری دار چادر کا سرہانہ بنائے تشریف فرما تھے، ہمیں مشرکین سے بہت تکلیف پہنچ چکی تھی، ہم نے عرض کیا، کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرماتے؟ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے کہ ان میں سے کسی کے لیے زمین میں گڑھا کھود دیا جاتا اور پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ دیا جاتا، اور اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے، یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے نہیں روکتی تھی۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت ہڈیوں اور پٹھوں میں دھنسا دیے جاتے اور یہ چیز بھی انہیں ان کے دین سے نہیں روکتی تھی، اللہ کی قسم! یہ دین مکمل ہو گا حتی کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اور اسے صرف اللہ ہی کا خوف ہو گا، اور اسے اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف بھی نہیں ہو گا، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6943)»