مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتقال کے وقت کیا عمر تھی
حدیث نمبر: 5839
Save to word اعراب
وعن انس قال: توفاه الله على راس ستين سنة. متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: تَوَفَّاهُ اللَّهُ على رَأس سِتِّينَ سنة. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساٹھ سال مکمل ہونے پر وفات دی۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (5900) و مسلم (113/ 2347)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی انتقال کے وقت عمر کیا تھی
حدیث نمبر: 5840
Save to word اعراب
وعنه قال: قبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين وابو بكر وهو ابن ثلاث وستين وعمر وهو ابن ثلاث وستين. رواه مسلم قال محمد بن إسماعيل البخاري: ثلاث وستين اكثر وَعَنْهُ قَالَ: قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ وَعُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ: ثَلَاث وَسِتِّينَ أَكثر
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جب روح قبض کی گئی تو اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی بھی روح جب قبض کی گئی تو اس وقت ان کی عمریں بھی تریسٹھ برس کی تھیں۔ رواہ مسلم۔ محمد بن اسماعیل امام بخاری ؒ نے فرمایا: تریسٹھ برس کی عمر کے متعلق روایات زیادہ ہیں۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (114/ 2348) و قال البخاري: ’’وھو ابن ثلاث و ستين و ھذا أصح‘‘. (التاريخ الکبير 255/3)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. جبرائیل علیہ السلام کی آمد
حدیث نمبر: 5841
Save to word اعراب
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه-وهو التعبد الليالي ذوات العدد-قبل ان ينزع إلى اهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال: اقرا. فقال: «ما انا بقارئ» . قال: فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلني فقال: اقرا. فقلت: ما انا بقارئ فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلني فقال: اقرا. فقلت: ما انا بقارئ. فاخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلني فقال: [اقرا باسم ربك الذي خلق. خلق الإنسان من علق. اقرا وربك الاكرم. الذي علم بالقلم. علم الإنسان ما لم يعلم]. فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده فدخل على خديجة فقال: «زملوني زملوني» فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال لخديجة واخبرها الخبر: «لقد خشيت على نفسي» فقالت خديجة: كلا والله لا يخزيك الله ابدا إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين على نوائب الحق ثم انطلقت به خديجة إلى ورقة بن نوفل ابن عم خديجة. فقالت له: يا ابن عم اسمع من ابن اخيك. فقال له ورقة: يا ابن اخي ماذا ترى؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما راى. فقال ورقة: هذا هو الناموس الذي انزل الله على موسى يا ليتني فيها جذعا يا ليتني اكون حيا إذ يخرجك قومك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «او مخرجي هم؟» قال: نعم لم يات رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا. ثم لم ينشب ورقة ان توفي وفتر الوحي. متفق عليه وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إليهِ الخَلاءُ وكانَ يَخْلُو بغارِ حِراءٍ فيتحنَّثُ فِيهِ-وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ-قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدَ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدَ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقَالَ: «مَا أَنَا بِقَارِئٍ» . قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجهد ثمَّ أَرْسلنِي فَقَالَ: [اقرَأْ باسمِ ربِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لم يعلم]. فَرجع بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لخديجةَ وأخبرَها الخبرَ: «لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وتقْرِي الضيفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ ابْنِ عَمِّ خَدِيجَةَ. فَقَالَتْ لَهُ: يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى. فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا هُوَ النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ؟» قَالَ: نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرُكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوَفِّيَ وَفَتَرَ الوحيُ. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا آغاز سچے و پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح (سچا) ثابت ہو جاتا، پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے، آپ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے، آپ اپنے اہل خانہ کے پاس آنے سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے، ان ایام کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جایا کرتے تھے، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی مدت کے لیے پھر زادِراہ ساتھ لے جاتے تھے، حتی کہ آپ غارِ حرا ہی میں تھے کہ آپ پر حق (وحی) آ گیا، فرشتہ (جبریل ؑ) آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا پڑھیے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں قاری نہیں (پڑھنا نہیں جانتا) ہوں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے مجھے پکڑا اور اتنی شدت سے دبایا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا، اور کہا: پڑھیے، میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس نے مجھے پکڑ کر دوسری مرتبہ خوب دبایا، مجھے اس بار بھی کافی تکلیف ہوئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا، اور کہا: پڑھیے، میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے مجھے تیسری مرتبہ دبایا اس بار بھی مجھے کافی تکلیف ہوئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا، پڑھیے، آپ کا رب بہت ہی کرم کرنے والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بعد واپس ہوئے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دل (خوف کی وجہ سے) دھڑک رہا تھا، آپ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے، اور فرمایا: مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو، انہوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا حتی کہ آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا: مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، راست گو ہیں، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں، اور مصیبت زدہ افراد کی اعانت کرتے ہیں، پھر خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، انہوں نے ان سے کہا: میرے چچا کے بیٹے!اپنے بھتیجے کی بات سنیں، ورقہ نے آپ سے کہا: بھتیجے! آپ کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو دیکھا تھا وہ کچھ اسے بتا دیا، ورقہ نے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا، کاش! میں اس وقت توانا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ اس نے کہا: ہاں جب کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پا لیا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا، پھر ورقہ جلد ہی وفات پا گئے اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3) و مسلم (253 / 160)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. جبرائیل علیہ السلام کا آپ کو بار بار تسلی دینا
حدیث نمبر: 5842
Save to word اعراب
وزاد البخاري: حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم-فيما بلغنا-حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبل فكلما اوفى بذروة جبل لكي يلقي نفسه منه تبدى له جبريل فقال: يا محمد إنك رسول الله حقا. فيسكن لذلك جاشه وتقر نفسه وَزَادَ الْبُخَارِيُّ: حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-فِيمَا بَلَغَنَا-حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مرَارًا كي يتردَّى منْ رؤوسِ شَوَاهِقِ الْجَبَلِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا. فَيَسْكُنُ لذلكَ جأشُه وتقرُّ نفسُه
اور امام بخاری ؒ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: حتی کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین ہو گئے، ہمیں جو روایات پہنچی ہیں، ان کے مطابق یہ ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید غمگین ہو گئے، کئی دفعہ ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا لیں، وہ جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اپنے آپ کو گرانے لگتے تو جبریل ؑ آپ کے سامنے آ جاتے اور کہتے: محمد! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، اس سے آپ کا قلبی اضطراب ختم ہو جاتا اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سکون محسوس کرتے۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (6982)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. سب سے پہلی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف زدہ ہوتا
حدیث نمبر: 5843
Save to word اعراب
وعن جابر انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث عن فترة الوحي قال: فبينا انا امشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والارض فجئثت منه رعبا حتى هويت إلى الارض فجئت اهلي فقلت: زملوني زملوني فانزل الله تعالى: [يا ايها المدثر. قم فانذر وربك فكبر. وثيابك فطهر. والرجز فاهجر] ثم حمي الوحي وتتابع. متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الأرضِ فجئتُ أَهلِي فقلتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأنْزل اللَّهُ تَعَالَى: [يَا أيُّها الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرجز فاهجر] ثمَّ حمي الْوَحْي وتتابع. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وحی کے رک جانے کے زمانے کے متعلق حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، فرمایا: اس اثنا میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو میں نے آسمان میں ایک آواز سنی، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، میں اس کے رعب سے خوف زدہ ہوا اور زمین پر گر پڑا، اس کے بعد میں اپنے اہل خانہ کے پاس آ گیا، اور میں نے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: کمبل اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ جائیں اور لوگوں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرائیں، اپنے رب کی بڑائی بیان کریں، اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی سے دور رہیں۔ پھر وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4) و مسلم (255/ 161)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. نزول وحی کی کیفیات
حدیث نمبر: 5844
Save to word اعراب
وعن عائشة ان الحارث بن هشام سال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله كيف ياتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «احيانا ياتيني مثل صلصلة الجرس وهو اشده علي فيفصم عني وقد وعيت عنه ما قال واحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فاعي ما يقول» . قالت عائشة: ولقد رايته ينزل عليه الوحي في اليوم الشديد البرد فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا. متفق عليه وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ» . قَالَتْ عَائِشَةُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کرتے ہوئے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی سی آواز کی صورت میں آتی ہے، اور وہ مجھ پر نہایت سخت ہوتی ہے، اور اس سے پسینہ جاری ہو جاتا ہے، اور جو وہ کہتا ہے، میں اسے یاد کر لیتا ہوں، اور کبھی فرشتہ آدمی کی شکل میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے، وہ جو کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ شدید سردی کے دن آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سے پسینے پھوٹ پڑتے اور آپ کی پیشانی پسینے سے شرابور ہو جاتی۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2) و مسلم (87، 86 / 2333)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نزول وحی کے وقت کیا کیفیت ہوتی تھی
حدیث نمبر: 5845
Save to word اعراب
وعن عبادة بن الصامت قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا نزل عليه الوحي كرب لذلك وتربد وجهه. وفي رواية: نكس راسه ونكس اصحابه رؤوسهم فلما اتلي عنه رفع راسه. رواه مسلم وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذا نزل عَلَيْهِ الْوَحْيُ كُرِبَ لِذَلِكَ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ. وَفِي رِوَايَة: نكَّسَ رأسَه ونكَّسَ أصحابُه رؤوسَهم فَلَمَّا أُتْلِيَ عَنْهُ رَفَعَ رَأْسَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تو اس وجہ سے آپ کرب محسوس کرتے اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر جھک جاتا، اور آپ کے صحابہ اپنے سر جھکا لیتے تھے، اور جب وحی ختم ہو جاتی تو آپ اپنا سر اٹھا لیتے تھے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (88/ 2334، 2335/89)»

قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (88/ 2334، 2335/89)
--. کوہ صفا پر اولین دعوت
حدیث نمبر: 5846
Save to word اعراب
وعن ابن عباس قال: لما نزلت [وانذر عشيرتك الاقربين] خرج النبي صلى الله عليه وسلم حتى صعد الصفا فجعل ينادي: «يا بني فهر يا بني عدي» لبطون قريش حتى اجتمعوا فجعل الرجل إذا لم يستطع ان يخرج ارسل رسولا لينظر ما هو فجاء ابو لهب وقريش فقال: ارايتم إن اخبرتكم ان خيلا تخرج من سفح هذا الجبل-وفي رواية: ان خيلا تخرج بالوادي تريد ان تغير عليكم-اكنتم مصدقي؟ قالوا: نعم ما جربنا عليك إلا صدقا. قال: «فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد» . قال ابو لهب: تبا لك الهذا جمعتنا؟ فنزلت: [تبت يدا ابي لهب وتب] متفق عليه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ [وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين] خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَجَعَلَ يُنَادِي: «يَا بَنِي فِهْرٍ يَا بني عدي» لبطون قُرَيْش حَتَّى اجْتَمعُوا فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُولًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ فَجَاءَ أَبُو لَهَبٍ وَقُرَيْشٌ فَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خيَلاً تخرجُ منْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ-وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ-أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا. قَالَ: «فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٌ شديدٍ» . قَالَ أَبُو لهبٍ: تبّاً لكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ: [تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ] مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت: اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔ نازل ہوئی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور صفا پر چڑھ کر آواز دینے لگے: بنو فہر! بنو عدی! آپ نے قریش کے قبیلوں کو آواز دی، حتی کہ وہ سب جمع ہو گئے، اگر کوئی آدمی خود نہیں آ سکتا تھا تو اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تھا تا کہ وہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے، چنانچہ ابو لہب اور قریشی بھی آ گئے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے بتاؤ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آنے والا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: اس وادی کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے، کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، کیونکہ ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سخت عذاب سے، جو تمہارے سامنے آ رہا ہے، تمہیں ڈراتا ہوں۔ ابولہب بول اٹھا، (نعوذ باللہ) تم ہلاک ہو جاؤ، تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی: ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4971) و الرواية الأولي (4770) و مسلم (208/355)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اونٹ کی اوجڑی اور غلاظت پھینکی گئی
حدیث نمبر: 5847
Save to word اعراب
وعن عبد الله بن مسعود قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي عند الكعبة وجمع قريش في مجالسهم إذ قال قائل: ايكم يقوم إلى جزور آل فلان فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها ثم يمهله حتى إذا سجد وضعه بين كتفيه وثبت النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا فضحكوا حتى مال بعضهم على بعض من الضحك فانطلق منطلق إلى فاطمة فاقبلت تسعى وثبت النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا حتى القته عنه واقبلت عليهم تسبهم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة قال: «اللهم عليك بقريش» ثلاثا-وكان إذا دعا دعا ثلاثا وإذا سال سال ثلاثا-: «اللهم عليك بعمرو بن هشام وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وامية بن خلف وعقبة بن ابي معيط وعمارة بن الوليد» . قال عبد الله: فو الله لقد رايتهم صرعى يوم بدر ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «واتبع اصحاب القليب لعنة» . متفق عليه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْكَعْبَةِ وَجُمِعَ قُرَيْشٌ فِي مَجَالِسِهِمْ إِذْ قَالَ قَائِلٌ: أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى جَزُورِ آلِ فُلَانٍ فَيَعْمِدُ إِلَى فَرْثِهَا وَدَمِهَا وَسَلَاهَا ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى إِذَا سَجَدَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا فَضَحِكُوا حَتَّى مَالَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنَ الضَّحِكِ فَانْطَلَقَ مُنْطَلِقٌ إِلَى فَاطِمَةَ فَأَقْبَلَتْ تَسْعَى وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا حَتَّى أَلْقَتْهُ عَنْهُ وَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَسُبُّهُمْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ» ثَلَاثًا-وَكَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلَاثًا وَإِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلَاثًا-: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَام وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بن الْوَلِيد» . قَالَ عبد الله: فو الله لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القليب لعنة» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اس اثنا میں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے جبکہ قریشی اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا: تم میں سے کون فلاں قبیلے کے ذبح کیے ہوئے اونٹوں کے پاس جائے اور وہ وہاں سے اس کا گوبر، خون اور پوست اٹھا لائے، پھر وہ انتظار کرے اور جب وہ سجدے میں جائیں تو وہ ان چیزوں کو ان کی گردن پر رکھ دے؟ چنانچہ ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا، (اور وہ سب چیزیں لے آیا) جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدے میں گئے تو اس نے وہ چیزیں آپ کی گردن پر رکھ دیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدے ہی کی حالت میں رہے، وہ (مشرکین) دیکھ کر ہنس رہے تھے اور ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے، چنانچہ ایک شخص فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا (اور انہیں بتایا) تو وہ دوڑتی ہوئی تشریف لائیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سجدے ہی کی حالت میں تھے فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اس (غلاظت) کو آپ سے اتار پھینکا، اور انہیں برا بھلا کہا، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، اے اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، اے اللہ! تو قریش کو پکڑ لے۔ تین بار فرمایا، اور آپ کا معمول تھا کہ جب آپ دعا کرتے تو تین بار دعا کرتے تھے، اور جب (اللہ سے) کوئی چیز طلب فرماتے تو تین بار طلب فرماتے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ لے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی قسم! بدر کے دن میں نے ان سب کو مقتول پایا، پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قلیب والوں پر لعنت برسا دی گئی۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (520) و مسلم (107/ 1794)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. دعوت دین میں رحمتہ للعالمین
حدیث نمبر: 5848
Save to word اعراب
وعن عائشة انها قالت: هل اتى عليك يوم كان اشد من يوم احد؟ فقال: لقد لقيت من قومك فكان اشد ما لقيت منهم يوم العقبة إذ عرضت نفسي على ابن عبد يا ليل بن كلال فلم يجبني إلى ما اردت فانطلقت-وانا مهموم-على وجهي فلم افق إلا في قرن الثعالب فرفعت راسي فإذا انا بسحابة قد اظلتني فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال: إن الله قد سمع قول قومك وما ردوا عليك وقد بعث إليك ملك الجبال لتامره بما شئت فيهم. قال: فناداني ملك الجبال فسلم علي ثم قال: يا محمد إن الله قد سمع قول قومك وانا ملك الجبال وقد بعثني ربك إليك لتامرني بامرك إن شئت اطبق عليهم الاخشبين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بل ارجو ان يخرج الله من اصلابهم من يعبد الله وحده ولا يشرك به شيئا» . متفق عليه وَعَن عَائِشَة أَنَّهَا قَالَت: هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ فَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عرضتُ نَفسِي على ابْن عبد يَا لِيل بْنِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ-وَأَنا مهموم-على وَجْهي فَلم أفق إِلَّا فِي قرن الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ. قَالَ: فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرك إِن شِئْت أطبق عَلَيْهِم الأخشبين فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن گزرا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے تمہاری قوم کی طرف سے بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن عقبہ کے دن مجھے ان کی طرف سے بہت تکلیف پہنچی ہے، جب میں نے ابن عبد یا لیل بن کلال پر دعوت پیش کی اور اس نے میری دعوت قبول نہ کی، میں حیران و پریشان واپس چل پڑا، مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کس سمت چل رہا ہوں، قرن ثعالب پر پہنچ کر مجھے کچھ پتہ چلا، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے، اس میں جبرائیل ؑ ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی، اور کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی بات اور ان کا جواب سن لیا ہے، اور اس نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ ان کے متعلق جو چاہیں حکم فرمائیں۔ فرمایا: پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی، اس نے مجھے سلام کہہ کر عرض کیا، محمد! اللہ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے، اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں، اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ لا کر ان پر ملا دوں۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کے صلب سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3231) و مسلم (111/ 1795)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.